بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی عدم موجودگی میں گیارہ سالہ بچی کی پرورش کا حق کس کو ہے؟


سوال

ایک شخص نے تیسری بیوی کو کسی بنا پر طلاق دی اور حق مہر وغیرہ دے کر 6ماہ کی بچی کو اپنی پہلی بیوی کے پاس پرورش کے لیے لایا، اب اس بچی کی عمر 11سال ہے، اب ان کے والدین کا انتقال ہوگیا ہے، مذکورہ بچی ابھی بھی اسی خاتون کے پاس ہے، جس نے بچپن میں اس کی تربیت کی تھی(یعنی مرحوم کی پہلی بیوی)، اور وہ یہ چاہتی بھی ہے کہ اسی خاتون کے ساتھ رہے،لیکن بچی کے والد کے ترکہ کے بٹوارے کے بعد (جو کہ تقریباً مرحوم کے انتقال کے 14ماہ بعد ہوا ہے)اب ہر رشتہ دار بچی کو حاصل کرنے کا دعوی کررہا ہے، حالاں کہ ابھی تک کوئی اس کا نہیں پوچھتا تھااور وہ اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ ہی تھی، بچی کے والد کی طرف سے رشتہ داروں میں دو علاتی بھائی( جن میں سے ایک بالغ اور ایک نابالغ ہے)،دو علاتی بہن اور دونوں شادی شدہ ہے،تین چچا، ایک پھوپھی اور دو سوتیلی مائیں ہیں، جن میں سے ایک کے ساتھ بچی رہائش پذیر ہے، اور اس(پہلی بیوی/سوتیلی ماں) نے اپنی آدھی جائیداد بھی اس کے نام کردی ہے،اور اب بچی کی وراثت میں اتنی رقم موجود ہے کہ اگر ماہانہ خرچہ اس سے دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا،اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بچی کی پرورش کا حق دار کون ہے؟اور کیا بچی اپنی  مرضی سے اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہ سکتی ہے؟شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

وضاحت: بچی کو ابھی تک ماہواری شروع نہیں ہوئی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بچی کے بالغ ہونے تک اس کا بالغ باپ شریک بھائی اس کی پرورش کا زیادہ حق دار ہے،بشرط یہ کہ وہ بھائی  قابلِ اعتماداور قابلِ بھروسہ ہو، اور اس کی فسق یا خیانت کی وجہ سے بچی کی جان، مال اور آبرو کو خطرہ نہ ہو۔

مذکورہ بچی بلوغت سے پہلے اپنی مرضی سے اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ نہیں رہ سکتی؛کیوں کہ  حقِ حضانت میں بالغ ہونے سے  پہلے بچی کی رائے کا  شرعا ًکوئی اعتبار نہیں ، البتہ  اگر اُس کا بھائی اور چچا اپنی رضامندی سے اُسے اُس کی سوتیلی ماں کے حوالہ کرنا چاہے تو کرسکتے ہیں،باقی بچی کے  بالغ  وسمجھ دار ہونے کے بعد اُس کو   اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہنے کا اختیار ہوگا ۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق، ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه. وإذا اجتمعوا فالأورع ثم الأسن."

وفيه أيضاً:

"(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية،وأفاده بقوله (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونة على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء بحر عن الظهيرية... (والجد بمنزلة الأب فيه) فيما ذكر (وإن لم يكن لها أب ولا جد، و) لكن (لها أخ أو عم فله ضمها إن لم يكن مفسدا، وإن كان) مفسدا (لا) يمكن من ذلك.

وفي الرد:(قوله: ضمها الأب إلى نفسه) أي وإن لم يخف عليها الفساد لو حديثة السن بحر، والأب غير قيد، فإن الأخ والعم كذلك عند فقد الأب ما لم يخف عليها منهما، فينظر القاضي امرأة مسلمة ثقة فتسلم إليها كما نص عليه في كافي الحاكم، وذكره المصنف بعد... وإن لم يكن للصبي أب وانقضت الحضانة فمن سواه من العصبة أولى الأقرب فالأقرب، غير أن الأنثى لا تدفع إلا إلى محرم. اهـ."

(باب الحضانة، 3 /567۔568، ط: سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"والجارية إن كانت ثيبا وهي غير مأمونة على نفسها لا يخلي سبيلها ويضمها إلى نفسه وإن كانت مأمونة على نفسها؛ فلا حق له فيها ويخلي سبيلها وتترك حيث أحبت وإن كانت بكرا لا يخلي سبيلها وإن كانت مأمونة على نفسها؛ لأنها مطمع لكل طامع ولم تختبر الرجال فلا يؤمن عليها الخداع.وأما شرطها فمن شرائطها العصوبة فلا تثبت إلا للعصبة من الرجال ويتقدم الأقرب فالأقرب الأب ثم الجد أبوه وإن علا ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم ثم ابن العم لأب، إن كان الصبي غلاما وإن كانت جارية فلا تسلم إليه؛ لأنه ليس بمحرم منها؛ لأنه يجوز له نكاحها فلا يؤمن عليها... ولو كان لها ثلاثة إخوة كلهم على درجة واحدة بأن كانوا كلهم لأب وأم أو لأب، أو ثلاثة أعمام كلهم على درجة واحدة؛ فأفضلهم صلاحا وورعا أولى فإن كانوا في ذلك سواء؛ فأكبرهم سنا أولى بالحضانة... ومنها: إذا كان الصغير جارية أن تكون عصبتها ممن يؤتمن عليها فإن كان لا يؤتمن لفسقه ولخيانته؛ لم يكن له فيها حق؛ لأن في كفالته لها ضررا عليها وهذه ولاية نظر فلا تثبت مع الضرر حتى لو كانت الإخوة والأعمام غير مأمونين على نفسها ومالها؛ لا تسلم إليهم وينظر القاضي امرأة من المسلمين ثقة عدلة أمينة فيسلمها إليها إلى أن تبلغ فتترك حيث شاءت وإن كانت بكرا."

(کتاب الحضانة، فصل فی وقت الحضانة، 4/43، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں