بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے پانی سے بیٹے کے لیے وضو کرنے کا حکم


سوال

اپنے باپ کے وضو کے پانی سے بیٹے کا نماز کے لیے وضو کرنا کیسا ہے؟

جواب

اگر آپ کی مراد سوال سے یہ ہے کہ والد کے وضو کرنے کے بعد جو پانی بچ جائے اس سے بیٹے کے لیے وضو کرنا کیسا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ والد کے وضو کے بچے ہوئے غیر مستعمل پانی سے بیٹے کے لیے وضو کرنا جائز ہے۔ 

اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ والد کے مملوکہ پانی سے بیٹے کے لیے وضو کرنے کا کیا حکم ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر والد صاحب کی طرف سے بیٹے کو وہ پانی استعمال کرنے کی صراحۃً یا دلالۃً اجازت ہو تو بیٹے کے لیے اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے، لیکن اگر والد کی طرف سے بیٹے کو اپنا مملوکہ پانی استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو تو پھر اگر بیٹا نابالغ اور غریب ہو (جس کی کفالت شرعًا والد کے ذمہ ہوتی ہے) تو اس کے لیے والد کے مملوکہ پانی سے وضو کرنا جائز ہوگا، لیکن اگر بیٹا بالغ یا مالدار  ہو (جس کی کفالت شرعًا والد کے ذمہ لازم نہیں ہوتی ہے)   تو اس کے لیے والد کی اجازت اور رضامندی کے بغیر والد کا مملوکہ پانی وضو کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔

اور اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ والد کے وضو میں استعمال شدہ پانی سے بیٹا وضو کرسکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وضو میں استعمال شدہ پانی ماءِ مستعمل کہلاتا ہے جو کہ خود تو پاک ہے، لیکن اس سے دوبارہ وضو یا غسل نہیں کیا جاسکتا ہے، چاہے پہلی بار اسے والد نے استعمال کیا ہو یا کسی اور نے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں