بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو القعدة 1446ھ 24 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

والد کا زندگی میں جائیداد بیٹوں کے نام کرنے کا حکم


سوال

1۔میرے والد صاحب  کا انتقال  2021 میں ہوا ہے،اور والدہ صاحبہ کا انتقال پہلے ہوچکا ہے، والدصاحب نے وفات سے قبل اپنی زندگی میں ہی   دو مکان ہم چار بھائیوں کے نام پر کیے   (جب کہ ہم کل چھ بھائی اور تین بہنیں ہیں )اور ان کی گفٹ ڈیڈ بھی ہمیں بنا کے دی، اور    KDA سے موٹیشن بھی کروا کے دی، ان دو مکانوں میں سے ایک میں والد صاحب بھی ہم چار بھائیوں کے ساتھ رہتے تھےاور والدصاحب کا انتقال بھی اسی  گھر میں ہوا ہے، جب کہ دوسرا مکان کرایہ پر تھا، اس کا کرایہ والد صاحب  لیتے   تھے، اس کے علاوہ  والد صاحب کا جو  بھی ترکہ تھا،  وہ ہم نے آپس میں رضامندی سے تقسیم کرلیا، اب  ایک بھائی  اور دو  بہنیں کہہ رہی  ہیں کہ   ان دو مکانوں میں ہمارا بھی حصہ ہے، آیا یہ دو مکان بھی والد صاحب کے  ترکہ  میں شمار ہوں گے یا نہیں  ؟

2۔والد صاحب کا ایک کاروبار تھا جو ہم چار بھائی 2003 سے چلا رہے تھے، والد صاحب نے 2003 میں  سارا کاروبار  ہمارے حوالے کردیا،پھر 2020 میں  اس کاروبار کو پارٹنر شپ کی شکل دی گئی،جس میں سے 20٪ والد صاحب کا حصہ تھا، اور بقیہ 80٪ ہم چار بھائیوں کا تھا، اب والد صاحب کے 20٪ حصے میں میراث کیسے تقسیم ہوگی ؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں  مذکورہ دونوں مکانات مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوں گے، چار بیٹوں کے نام کرنے کے باوجود  مذکورہ چاروں بیٹے ان مکانات کے شرعاً مالک نہیں ہوں گے، مالک نہ بننے کی ایک وجہ تو  یہ ہے کہ  والد صاحب نے دونوں مکانات مشترکہ طور پر چاروں بیٹے کے نام کئے تھے، جب کہ ہبہ ( گفٹ)  کے درست ہونے کے لئے  ہر ایک کا حصہ متعین کرکے ہر ایک کے قبضہ میں اس کا حصہ دیناشرعاً  ضروری  ہوتا ہے،دوسری وجہ یہ کہ مذکورہ دونوں مکانات  ساری زندگی والد صاحب کے زیر تصرف رہے یعنی ایک مکان میں رہائش پذیر رہے، اور دوسرے مکان کا کرایہ خود وصول کرتے رہے،جب کہ ہبہ (گفٹ) کے درست ہونے  کے لئے ہبہ کردہ چیز سے جملہ تصرفات کا حق ختم کرنا شرعاً ضروری ہوتا ہے،لہذا مذکورہ دونوں مکانات حصص  ِشرعیہ  کے تناسب سے مرحوم کے تمام ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری ہوگا،مذکورہ چاروں بیٹے تنہا مالک قرار نہیں پائیں گے۔ پس مرحوم کے ترکہ میں شامل مذکورہ دونوں گھروں کی تقسیم  کا طریقہ یہ ہے کہ  مرحوم  کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد،  اگر مرحوم پر قرض ہو،  اسے  اسے ادا کرنے کے بعد،  اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو  اسے ایک تہائی ترکہ سے پورا کرنے کے بعد بقیہ کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 15 حصوں  میں تقسیم کرکے دو، دو حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو،  اور ایک،  ایک  حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت (مرحوم والد)  :15

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
222222111

یعنی فیصد کے اعتبار سے والد مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو 13.33٪، ور ہر ایک بیٹی کو    6.66٪ حصہ ملےگا۔

2۔مذکورہ کاروبار اگر کاغذات کی حد تک پارٹنر شپ میں تبدیل کیا گیا ہو،  ہر ایک کا حصہ متعین کرکے اس کے قبضہ میں نہ دیا گیا ہو ، تو اس صورت میں مذکورہ بالا کاروبار والد صاحب کا شمار ہوگا، اور ان کی وفات کے بعد مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگا،اور تقسیم بالا کے مطابق مرحوم کے تمام ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"سوال : ایک شخص نے اپنا مکان دوسرے کو ہبہ کر دیا لیکن ہبہ کرنے والا اسی مکان میں رہتا ہے اور اس مکان میں سے اپنا سامان نکالا نہیں ہے۔ ایسی صورت میں یہ ہبہ کرنا صحیح ہوا یا نہیں؟ مع حوالہ کے جواب تحریر فرمائیں۔

جواب     :ہبہ نامہ مکمل ہونے کے لئے موہوب لہ کا قبضہ ضروری ہے، صورت مسئولہ میں قبضہ بدستور واہب کے رہا، اس لئے ہبہ تام نہیں ہوا، یہ مسئلہ کتب فقه: در مختار ، شامی ، عالمگیری ، خانیه ، ہدایہ وغیرہ سب میں مذکور ہے۔ "

(کتاب الھبة ،ج : 16، ص : 470/469، ط : ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب."

( کتاب الھبة،‌‌ الباب الأول تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، ج : 4، ص : 375، ط : رشیدیه)

المحیط البرھانی میں ہے :

"قال محمد رحمه الله في "الأصل" : لا تجوز الهبة إلا محوزة مقسومة مقبوضة يستوي فيها الأجنبي والولد إذا كان بالغاً، وقوله لا يجوز: لا يتم الحكم."

وفیہ ایضا :

"نوع منه: رجل وهب لرجل داراً فيها متاع الواهب ودفعها إلى الموهوب له فالهبة باطلة، هكذا ذكر في «الزيادات» ومعناه إنه غير تامة وفي «البقالي» يقول: في الدار متاع الواهب أو إنسان من أهله."

(کتاب الھبة، ‌‌الفصل الثاني: فيما يجوز في الهبة وما لا يجوز، ج : 6، ص : 241/238، ط : دار الکتب العلمیة)

وفیہ ایضا:

"وعن أبي يوسف لا يجوز للرجل أن يهب لامرأته، أو أن تهب لزوجها ولأجنبي دارا وهما فيها ساكنان، كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن الواهب إذا كان في الدار فيده بائن على الدار، وذلك يمنع تمام يد الموهوب له، قال: ولو وهبها لابنه الصغير وهو ساكن فيها يعني الواهب جاز وقد مر."

(كتاب الهبة والصدقة، الفصل الخامس: في الرجوع في الهبة، 6 / 250، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100934

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں