بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا والدہ کے زیر حضانت بچی کو گھر لے کے جانا


سوال

میرے اور میری سابقہ بیوی کے درمیان ناچاقیاں ہوگئیں تھیں اور بات علیحدگی تک پہنچ گئی ،اس نکاح سے میری ایک بیٹی ہے،اس کی عمر تقریبا ساڑھے تین سال ہے ،طلاق اور اس کے بعد کے معاملات طے کرنے کے لیے طرفین نے جرگہ بٹھایا جس میں دونوں طرف سے نامزد افراد نے شرکت کی ،جرگہ میں طے پایا کہ میں ایک طلاق دیکر بیوی کو نکاح سے فارغ کردوں،بیٹی کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا کہ وہ ماں کے پاس رہے گی یا میرے پاس ، اور مجھ سے ہر پندرہ دن میں ملاقات کروائی  جائے گی،ملاقات  کے لیےDHA پارک نامی جگہ طے ہوئی تھی،چنانچہ میں نے طلاق دے دی ،طلاق کے بعدشروع میں تو میں بیٹی سے وہیں ملتا رہا ،پھر کچھ عرصہ بعد میں بیٹی کو اپنے ساتھ گھر لے جانے لگا اور شام یا رات تک اپنے پاس ٹھہرانے لگا جس پر دوسرے فریق یعنی میری بیٹی کے ننھیال والے ناراض ہوئے اور بیٹی سے ملوانا بند کردیا ،اب صورتحال یہ ہے کہ مجھے بیٹی سے ملوانا بالکل بند کردیا گیا ہے ، مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ بیٹی سے ملاقات وغیرہ سے متعلق دونوں فریقین کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور کیا حقوق ہیں؟اور شرعی فیصلے کے بعد بھی اگر لڑکی والے بچی سے ملاقات کروانے سے انکار کردیں تو اس صورت میں شریعت کیا فیصلہ دیتی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کی بیٹی 9 سال کی عمر  تک اپنی والدہ کےزیر پرورش رہے گی ،9 سال کی عمر ہوجانے کے بعد بچی کی تعلیم و تربیت والدپر لازم ہے ،اس پوری مدت میں اور اس کے بعد بھی بچی کی شادی تک اس کے تمام تراخراجات سائل کے ذمہ لازم ہیں ۔جب تک بچی کا حق پرورش اس کی والدہ کے پاس ہے اس مدت میں والدہ کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ بچی کے والد کو اپنی بچی سے ملاقات کرنے سے روکیں اور جب تربیت کا اختیار سائل کے پاس آجائے اس   کے بعد سائل کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ بچی کی والدہ کو اس سے ملاقات کرنے سے روکے۔

اگر سائل کے سسرال والے سائل کو بچی سے ملاقات کی اجازت تو دیتے ہوں،  لیکن بچی کو گھر لے جانے پر اعتراض کرتے ہوں تو  وہ اس اعتراض میں حق بجانب ہیں ،سائل بچی سے مقررہ جگہ جا کر ملاقات تو کرسکتا ہے لیکن پرورش کی مدت میں شرعًا اسے اپنے گھر لے جانے کا حق دار نہیں ہے،تاہم اس سلسلے میں بچی کے والدین کو چاہیے کہ وہ بچی کی بہتر پرورش اور نشو نما کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مخالفت کی فضا قائم کرنے کے بجائےباہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں؛ تاکہ بچی والدہ  اوروالد میں سے کسی کی   محبت  سےمحروم نہ رہے۔

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لايمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعهده."

(کتاب الحضانۃ،ج:3،ص: 571،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية... (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى...(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي."

(باب الحضانۃ،ج:3،ص:567،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"كما يمنع الأب من إخراجه من بلد أمه.

"قوله: (من إخراجه) أي إلى مكان بعيد، أو قريب يمكنها أن تبصره فيه ثم ترجع لأنها إذا كانت لها الحضانة يمنع من أخذه منها فضلا عن إخراجه، فما في النهر من تقييده بالعبد أخذا مما يأتي عن الحاوي غير صحيح فافهم."

(باب الحضانۃ،ج:3،ص:570،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"وفي الحاوي: له إخراجه إلى مكان يمكنها أن تبصر ولدها كل يوم كما في جانبها فليحفظ.

(قوله: إخراجه إلخ) أنت خبير بأن هذا محمول على ما إذا لم يكن لها حق الحضانة إذ لو كان لها الحضانة لا تمكنه من أخذه منها فضلا عن إخراجه عنها إلى قرية، أو بلدة قريبة، أو بعيدة خلافا لما في النهر كما مر فافهم الخ."

(باب الحضانۃ،ج:3،ص:571،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب الخ."

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر فی الحضانۃ،ج:1،ص:542،ط:رشیدیہ)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100752

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں