بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا صاحب استطاعت ہونے کے باوجود گھریلو اخراجات نہ دینا


سوال

میں ایک سرکاری ملازم ہوں، میرے والد خاصے صاحب جائیداد ہیں، گھر میں والدہ، دو بھائی، تین بہنیں،بیوی اور میرا بچہ ہے، والد صاحب نے نان و نفقہ دینا بند کیا ہوا ہے،  میری آمدن سے گھر کا خرچ پورا نہیں ہوتا،  والد صاحب کو ہر ہر بات کا علم ہے، لیکن وہ اپنی عادات میں ذرا تبدیلی نہیں لاتے، نہ گھر خرچ میں کوئی مدد کرتے ہیں، نہ ہی زمین یا اس کی مستاجری دیتے ہیں،  الٹا مجھ سے ہی توقع کرتے ہیں کہ میں ان کو بھی خرچہ دوں، میں بہت پریشان ہوں کچھ راہ نمائی فرما دیجیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کی آمدن سے گھر یلو اخراجات پورے نہیں ہو رہے، جب کہ سائل کے والد صاحبِ استطاعت بھی  ہیں تو ایسی صورت میں  سائل کی والدہ اور سائل کی بہنوں  کا، نیز  اگر   سائل کے بھائی چھوٹے ہیں  اور کمانے کے قابل نہیں  ہیں تو ان کے اخراجات سائل کے والد کے ذمے  لاز م ہیں، اور  سائل پر اپنی بیوی بچوں کےاخراجات برداشت کرنا لازم ہے، اس کے لیے بہتر صورت یہ ہے کہ سائل اور اس کے والد مل کر گھریلو اخراجات کو آپس میں تقسیم کرکے اپنے اپنے حصے کا خرچ برداشت کریں، سائل کی آمدن سے اخراجات پورے نہ ہونے کی صورت میں والد کا بالکل اخراجات نہ کرنا  درست نہیں ہے،  سائل کو چاہیے کہ وہ خوش اسلوبی کے ساتھ گھریلو اخراجات پر اپنے والد  سے مشورہ کر کے اخراجات کی تقسیم کے لیے بہتر حل نکالے۔  

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء) ولو قادرين على الكسب

"(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر."

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص621،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1،ص:560، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1،ص:561، ط: رشيدية)

و فيه أيضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1،ص:562، ط: رشيدية)

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144406101713

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں