بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا متروکہ مکان فروخت کر کے خریدے گئے دوسرے مکان میں والد کے تمام ورثاء شریک ہوں گے


سوال

میرے والد کا انتقال ہوا، ترکہ میں والد کاحیدر آباد میں ایک مکان تھا، ہم اس وقت چھوٹے تھے، والدہ نے وہ گھر بیچ کر کراچی میں اس رقم سے گھر خریدا، تقریباً 14 سال پہلے والدہ کا بھی انتقال ہو گیا، ان کے ورثاء میں  اس وقت دو بیٹے اور دو بیٹیاں حیات تھیں، والدین کے والدین ان کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے، اب دو سال قبل میرے ایک بھائی کا انتقال ہوا، ورثاء میں ایک بیٹی ، ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں، بیوی کا انتقال مرحوم کی زندگی میں ہوگیا تھا، ترکہ کے مکان کی قیمت 8070000 روپے ہے۔

ورثاء میں مذکورہ رقم کس طرح تقسیم ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے مرحوم والد کی وفات کے بعد والدہ نے ان کا حیدر آباد والا مکان بیچ کرکراچی میں جو مکان خریدا تھا اس میں والد مرحوم کے تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے بقدر حق دار ہوں گے، والد مرحوم کی میراث تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے ترکہ میں سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے اخراجات نکالے جائیں، پھر اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو ترکہ سے اسے ادا کیا جائے پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی سے اسے نافذ کیا جائے، اس کے بعد جو مال بچ جائےاس کے 24 حصے کر کے زندہ بیٹے یعنی سائل کو 10 حصے، دو بیٹیوں میں سے ہر بیٹی  کو 5، 5حصے اور مرحوم بھائی کی بیٹی کو 4 حصے ملیں گے۔

میت---مسئلہ:6/ 24---والد، والدہ

بیٹابیٹابیٹیبیٹی
2211
فوت شد844

میت---مسئلہ:2/ 8/ 4---بیٹا--- ما فی الید:2/1

بیٹیبھائیبہنبہن
11
4211

یعنی حقوق کی ادائیگی کے بعد ترکہ کا41.6667 فیصدمرحوم والد کے بیٹے یعنی سائل کو،20.8333 فیصد مرحوم کی ہر بیٹی کو اور16.6667 فیصد مرحوم بیٹے کی بیٹی کو ملے گا۔

8070000 روپے میں سے 3362500 روپے بیٹے کو، 1681250 روپے ہر بیٹی کو  اور 1345000 روپے مرحوم بیٹے کی بیٹی کو ملیں گے۔

مجلۃ الاحكام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 1060) شركة الملك هي كون الشيء مشتركا بين أكثر من واحد أي مخصوصا بهم بسبب من أسباب التملك كالاشتراء والاتهاب وقبول الوصية والتوارث...مثلا:...ورث اثنان مالا فيكون ذلك المال مشتركا بينهما ويكونان ذوي نصيب في ذلك المال ومتشاركين فيه ويكون كل منهما شريك الآخر فيه".

(‌‌الكتاب العاشر: الشركات ،‌‌الباب الأول في بيان شركة الملك ،‌‌الفصل الأول: في بيان تعريف وتقسيم شركة الملك،ص204،ط:نور محمد)

وفیہ ایضاً:

"(المادة 1073) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم...

(المادة 1075) كل واحد من الشركاء في شركة الملك أجنبي في حصة الآخر ولا يعتبر أحد وكيلا عن الآخر فلذلك لا يجوز تصرف أحدهما في حصة الآخر بدون إذنه".

(أيضاً ،‌‌الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة ،ص206)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں