بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا معقول عذر کے بغیر رشتہ سے انکار صحیح نہیں جب کہ لڑکی اور والدہ راضی ہوں


سوال

ایک لڑکی کو اس کے رشتہ داروں میں سے ایک رشتہ آیا ، لڑکی کے والد صاحب ان لوگوں کی دینی، دنیوی یا اخلاقی حالت پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ وہ یہی کہتے ہیں کہ میری نہیں بنتی ان کے ساتھ، میں ان سے رشتہ داری نہیں کرنا چاہتا۔ لڑکی کی والدہ اور لڑکی بھی راضی ہیں. اس کے نکاح میں تاخیر ان جیسی وجوہات کی بناء پر کرنا کیا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بلا عذر لڑکی کے رشتے میں تاخیر کرنا شرعی اعتبار سے صحیح نہیں ہے خصوصاً اس وقت جب کہ اس کے جوڑ کا رشتہ مل جائے، جامع ترمذی میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ  اے علی تین چیزوں میں دیر نہ کرو۔ نماز جب کہ اس کا وقت ہو جائے جنازہ جب کہ حاضر ہو اور بے نکاحی عورت جب اس کے لئے کفو (مناسب رشہ) مل جائے، نیز اگر لڑکے والوں کی دینی اور اخلاقی حالت قابلِ اطمینان ہو تب تو رشتہ کی تاخیر کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہتا اور ایسی صورت میں رشتہ نہ کرنے سے معاشرے میں فتنہ اور فساد پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے، چنانچہ جامع ترمذی ہی کی ایک اور روایت میں حضرت ابو الحاتم المزنی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ  جب تمہارے پاس ایسا شخص آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کرو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد ہوگا صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگرچہ اس  میں کوئی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو (مثلاً وہ غریب ہو یا اس کا نسب عالی نہ ہو)۔ فرمایا اگر اس کی دینداری اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو اسی سے نکاح کرو۔ یہی الفاظ تین مرتبہ فرمائے۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی کے والد کا کسی معقول عذر کے بغیر اس رشتہ سے منع کرنا شریعت کی نظر میں درست نہیں ہے، لیکن اگر وہ کسی معقول وجہ کی بنا پر انکار کر رہے ہیں اور ان کی نظر میں کوئی مناسب اور جوڑوالا رشتہ بھی موجود بھی ہے تو لڑکی اور اس کی والدہ کو بھی چاہیے کہ والد کی رضامندی کی رعایت کریں اور نکاح جیسے بیٹی کے نکاح کے اہم معاملے کو باہمی رضامندی سے طے کریں۔

سنن ترمذی میں ہے:

"1075 - حدثنا قتيبة قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له: " يا علي، ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئا " هذا حديث غريب، وما أرى إسناده بمتصل".

(‌‌أبواب الجنائز، باب ما جاء في تعجيل الجنازة، 3/ 379 ت شاكر، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

وفيه أيضاً:

"1085 - حدثنا محمد بن عمرو السواق البلخي قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن عبد الله بن هرمز، عن محمد وسعيد، ابني عبيد، عن أبي حاتم المزني قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا جاءكم ‌من ‌ترضون دينه وخلقه فأنكحوه، إلا تفعلوا تكن ‌فتنة ‌في ‌الأرض وفساد»، قالوا: يا رسول الله، وإن كان فيه؟ قال: «إذا جاءكم ‌من ‌ترضون دينه وخلقه فأنكحوه»، ثلاث مرات: «هذا حديث حسن غريب، وأبو حاتم المزني له صحبة، ولا نعرف له عن النبي صلى الله عليه وسلم غير هذا الحديث".

(‌‌أبواب النكاح، باب ما جاء إذا جاءكم من ترضون دينه فزوجوه، 3/ 387 ت شاكر، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

الكوكب الدری علی جامع الترمذی میں ہے:

"[إلا تفعلوا] لأنكم  إذا لم تزوجوا المتدين السهل الخلق بل اخترتم عليه المتمول الفاسق الشرس  الخلق وإن كان شريف النسب فإنه يعامل بزوجته على مقتضى فسقه وخلقه السوء، ولا ريب حينئذ في الشقاق بينهما والخلاف، وأي فساد أكثر منه. قوله [يا رسول الله وإن كان فيه] أي شيء من الإفلاس أو كان في نسبه شيء وإنما لم يجب عنه بجواب جديد بل اكتفى على تكرار ما قاله من قبل إشارة إلى أن هذا السؤال مما لا ينبغي أن يعول عليه وليس له رتبة أن يخيل إليه".

(أبواب النكاح، باب ما جاء إذا جاءكم من ترضون دينه فزوجوه، 2/ 212، ط:مطبعة ندوة العلماء)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101999

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں