بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا مکان بیٹے کو دینا


سوال

 آج سے تقریباً سولہ سترہ سال قبل والد صاحب کا انتقالِ پُر مَلال ہوا، اور ترکہ میں انہوں نےجو زمین و جائداد اور دیگر اَملاک چھوڑیں اُس کی کُل قیمت اُس وقت کے اعتبار سے چودہ لاکھ پندرہ ہزار روپے تھی۔ وارثین میں ایک بیوہ ، دو بیٹیاں، اور تین بیٹے تھے۔ از روئے شرع ہر ایک کے حق و حصے کی تعیین و توضیح فرماکر عنداللہ مأجور ہوں۔ ۲) ایک مکان جس کی موجودہ قیمت ومالیت چالیس لاکھ روپے ہے، جس کو والد صاحب نے اپنے حینِ حیات پورے ہوش و حواس میں بغیر کسی جبر و اِکراہ اور دباؤ کے، کاغذی و دستاویزی، علیحدگی اور سپردگی ہر اعتبار سے میرے نام اور میرے قبضے و تصرُّف میں دے دیا تھا۔ اور میری معلومات کے مطابق اُس مکان کے تعلق سے کسی طرح کی کوئی وصیت بھی نہیں کی تھی (کہ میری وفات کے بعد اس کو تمام بھائیوں اور بہنوں میں شرعی اعتبار سے تقسیم کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ ) لیکن اب والد صاحب کی وفات کے بعد بھائیوں اور بہنوں نے میرے اُس مملوکہ مکان کی تقسیم پر بارہا اصرار اور زور دیا اور اس میں سے بھی اپنے حصہ کا مطالبہ کیا، جبکہ میں اُس مکان کی دیکھ ریکھ، اس کے نظم و نسق اور اُس کے ٹیکس و دیگر اخراجات کو جب سے میری ملکیت میں ہے تنہا ہی ادا کرتا چلا آیا ہوں، اور اسی طرح اُس کے منافع و آمدن کو تنہا میں ہی وصول کرتا چلا آیا ہوں، اس پر کسی بھائی یا بہن کو کبھی اعتراض نہیں تھا۔ اور مزید یہ کہ والد صاحب کے ترکہ(یعنی چودہ لاکھ پندرہ ہزار ) میں سے میں نے اپنا حق و حصہ بھی نہیں لیا اس رعایت و لحاظ اور خیال میں کہ والد صاحب نے از خود پہلے ہی مکان میرے سپرد کر دیا ہے اور الحمد للہ میری مالی حالت بھی مستحکم ہے۔ تو کیا اب اس طرح بھائیوں اور بہنوں کا میرے اُس مملوکہ مکان کی تقسیم کا مطالبہ اور اصرار کرنا دُرست اور جائز ہے؟ اور دوسرے یہ کہ : اگر میں نے اختلاف و نزاع کے سیّد باب کے لیے اور جذبۂ اُخوَّت و ہمدردی اور ترحُّم کی بناء پر اُن کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اُس مکان کو تقسیم کیا، تو کیا شرعی اعتبار سے اسے بھی والد صاحب کا ترکہ شمار کرتے ہوئے بھائیوں اور بہنوں کے درمیان تقسیم کرنا ہوگا؟ یا پھر میری منشاء کے مطابق کم و بیش اور حسبِ ضرورت بھائیوں اور بہنوں کو دینا جائز ہوگا؟ نیز یہ بھی واضح فرمادیں کہ : اس مکان کی موجودہ تقسیم کے وقت والدہ محترمہ بھی چونکہ اس دنیا سے رخصت ہو چلی ہیں تو اب صرف موجودہ وارثوں، دو بہنوں اور تین بھائیوں کے درمیان اس مکان کی کُل قیمت یعنی چالیس لاکھ روپے میں سے ہر ایک کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟ 

جواب

1)صورت مسؤلہ میں  جس  مکان کو والد صاحب نے اپنے  ہوش و حواس میں بغیر کسی جبر و اِکراہ اور دباؤ کے، ہر اعتبار سےسائل کے نام اوراس کے  قبضے و تصرُّف میں دے دیا تھا، اور اُس مکان کے متعلق  کسی طرح کی کوئی وصیت بھی نہیں کی تھی (کہ میری وفات کے بعد اس کو تمام بھائیوں اور بہنوں میں شرعی اعتبار سے تقسیم کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ ) اور اب والد صاحب کی وفات کے بعد بھائیوں اور بہنوں نے میرے اُس مملوکہ مکان کی تقسیم پر   زور دیا اور اس میں سے بھی اپنے حصہ کا مطالبہ کیا، جبکہ میں اُس مکان کی ذمہ داری اور ملکیت  اور  اس کے نظم و نسق اور اُس کے ٹیکس و دیگر اخراجات کو جب سے والد نے دیا  ہے  تنہا ادا  کرتا رہا ہے   اور اُس کے منافع و آمدن کو وصول کرتا  رہا ہے تو اب بھائیوں اور بہنوں کا اُس  مکان کی تقسیم کا مطالبہ اور اصرار کرنا دُرست اور جائز نہیں  ہے، بلکہ وہ گھر   سائل کی ملکیت ہے۔ البتہ  اگرسائل  اختلاف و نزاع کےسد باب کے لیے  اُن کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اُس مکان کو تقسیم کردے  تو یہ اس کی  جانب سے تبرع ہوگا، اور پھر بھی والد کا ترکہ شمار نہیں ہوگا۔

2) صورتِ  مسؤلہ  میں مرحوم کے  ترکہ  کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ متقدمہ (یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات) ادا کرنے کے بعد باقی کل جائیداد کو   64حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے  8 حصے  بیوہ کو ، 14،14 حصے  بیٹے کو اور 7،7 حصے ہر بیٹی کو ملیں  گے۔

میت 8  -64

بیوہ بیٹیبیٹی بیٹابیٹابیٹا
17
877141414

یعنی    12اعشاریہ 50 فیصد   بیوہ کو 21 اعشاریہ 875  فیصد  ہر  بیٹے کو اور10 اعشاریہ 93 فیصد ہر بیٹی کو ملیں  گے۔

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144508101144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں