میرے والد کے پاس ایک زمین تھی جس میں دو حصے میرے والد کے تھے اور ایک حصہ کسی اور کا تھا،والد صاحب نے اس تیسرے حصے کو خریدنا چاہا اور اس کے لیے اپنے بڑے بیٹوں سے مشورہ کیا اور ان سے رقم کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے رقم دینے سے انکار کردیا، پھروالدصاحب نے مجھے کہا کہ یہ زمین تم خریدلو تو میں نے والدصاحب کو رقم دی جس سے انہوں نے وہ حصہ میرے لیے خرید لیا،نیز زمین خریدنے کے بعد زمین کا بونڈ گواہوں کی موجودگی میں میرے نام بنایا گیا تھا،اب والدصاحب کے انتقال کے بعد میرے بڑے بھائی اور بھتیجے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس تیسرے حصے میں بھی ہمارا حق ہے،قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا جواب عنایت فرمائیں؟
صورت مسئولہ میں جب سائل کے والدنے سائل سے رقم کا مطالبہ کرتے وقت یہ کہاتھا کہ یہ زمین تم اپنے لیے خریدلو اور اس کے بعد جب سائل نے زمین کی قیمت ادا کی تو سائل کے والدنے مذکورہ زمین سائل کے لیے خرید کر اس کے کاغذات میں بھی سائل کا نام لکھوایا تھا تو یہ زمین سائل کی ملکیت شمار ہوگی ،اور سائل کے بھائیوں اور بھتیجوں کا زمین کے اس حصے میں دعوی کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق."
(فصل فی التعزیر: ج2 ص، 167 ط: رشیدیه)
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة ٩٦) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه.
(المادة ٩٧) : لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقالة الثانیة فی بيان القواعد الكلیة الفقہیة ص: 27 ط: نورمحمدکارخانه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100311
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن