بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا بیٹیوں سے اور والدہ کا بیٹے سے گلے ملنا / سوتیلی والدہ کی خدمت


سوال

 زید کے یہاں والد اپنی بیٹیوں کو گلے لگا کر ملاکرتے ہیں،  جس میں جوان اور شادی شدہ بیٹیوں کے سینے  سے والد کا جسم ملتا ہے اور اس دوران ہاتھ ملانا اور سر پر ہاتھ رکھنا بھی ایک عام سی بات ہے، اس صورت میں کثرت سے یہ صورتِ حال پیش آنے سے کیا کسی کے حق میں حرمتِ مصاہرت کی کوئی صورت تو نہیں ہوتی؟ نیز شادی شدہ بیٹیوں کا اپنے شوہر سے نکاح پر کوئی اثر تو نہیں پڑتا؟ اسی طرح بیٹے کا ماں کو گلے لگاکر ملنے کے بارے میں بھی کیاحکم ہے؟

جو بچے دوسری بیوی کے ساتھ رہتے ہوں یعنی وہ اپنی حقیقی ماں کے ساتھ نہیں رہتے اور اب بارہ  سال کے ہونے والے ہوں،  ان کو حرمتِ مصاہرت کے بارے میں کس طرح احتیاط کروائی جائے، کیا وہ اپنی سوتیلی ماں کے پیر  ہاتھ  دباسکتے  ہیں ؟ اس  سلسلے  میں ان بچوں کو  یا ان کی سوتیلی ماں کو کس طرح سے احتیاط کروائی جائے اور کن کن امور کا خیال رکھا جائے؛ کیوں کہ بچے سوتیلی ماں کے ساتھ اب بڑے ہورہے ہیں؟

جواب

کسی  خوشی  یا غم کے موقع پر، یا سفر سے واپسی پر  اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو  عورت کا اپنے محرم سے گلے  ملنا مباح ہے، اگر کسی بھی جانب سے فتنے کا اندیشہ ہو تو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

اگر باپ اپنی بیٹی سے گلے ملے یا ماں اپنے جوان بیٹے سے  گلے ملے یا بوسہ دے، اور شہوت ہونے کا دعوی نہ کرے اور کوئی قرینہ بھی موجود نہ ہو تو  اس کو شہوت پر محمول نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی حرمتِ  مصاہرت کا حکم لگے گا، اس لیے بچوں سے پیار ومحبت ایک فطری امر ہے، تاہم اولاد کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ  اس انداز کو بدلنا چاہیے، تاکہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہ  رہے، نیز احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے۔

باقی یہ واضح رہے کہ ملاقات کے وقت اصل سنت سلام  (یعنی زبان سے السلام علیکم کے الفاظ کہنا) ہے، اور اس کا تتمہ مصافحہ ہے،  اگر کوئی شخص ملاقات کے وقت سنت،  اور سلام کاتتمہ ہونے کی حیثیت سے معانقہ  کرے تو یہ مکروہ ہے، اور اپنی  بیوی یا (شرعی قواعد کے مطابق) اپنی مملوکہ  باندی کے علاوہ کسی اور سے شہوت سے ”معانقہ“ کرنا حرام ہے،  اور نفسانی شہوت کے شائبہ کے بغیر، فرطِ محبت اور جوشِ مسرت کی بنا پر (کسی محرم سے) کرلیا تو  یہ مباح ہے، البتہ ہر ملاقات پر معانقہ کرنا سنت نہیں ہے، احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب سفر سے واپس آتے تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کا استقبال فرماتے اور ان سے معانقہ بھی فرماتے، لیکن روزانہ یا عمومی ملاقات میں آپ ﷺ یا صحابہ کرام معانقہ نہیں کیا کرتے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ جب ملاقات کرتے تھے تو مصافحہ کرتے تھے، اور جب سفر سے آتے تھے تو معانقہ کرتے تھے۔ (الترغیب والترہیب)

2۔۔ سوتیلی والدہ بھی  لڑکے لیے محرم ہے، ان کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم ہے، ان کی ضروریات  کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے،  البتہ کسی حالات یا خاص موقع پر  سوتیلی والدہ کی بدنی خدمت میں فتنہ کا اندیشہ ہو  یا سوتیلی والدہ جوان ہو تو پھر اس صورت میں بدنی خدمت سے احتراز کرنا چاہیے، نیز بچوں  کی عمر دس سال ہوجانے کے بعد بستر بھی الگ کردینے  چاہییں۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 36):

"(قوله: حرمت عليه امرأته إلخ) أي يفتى بالحرمة إذا سئل عنها، ولا يصدق إذا ادعى عدم الشهوة إلا إذا ظهر عدمها بقرينة الحال، وهذا موافق لما تقدم عن القهستاني والشهيد، ومخالف لما نقلناه عن الجوهرة ورجحه في الفتح وعلى هذا فكان الأولى أن يقول لا تحرم ما لم تعلم الشهوة أي بأن قبلها منتشرا، أو على الفم فيوافق ما نقلناه عن الفيض ولما سيأتي أيضا وحينئذ فلا فرق بين التقبيل والمس. (قوله: ولو على الفم) مبالغة على المنفي لا على النفي. والمعنى: حرمت امرأته إذا لم يظهر عدم اشتهاء، وهو صادق بظهور الشهوة والشك فيها، أما إذا ظهر عدم الشهوة فلا تحرم ولو كانت القبلة على الفم. اهـ."

الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف (1 / 130):

"قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَقَدْ أَجْمَعَ كُلُّ مَنْ حُفِظَ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى أَنْ لَا وُضُوءَ عَلَى الرَّجُلِ إِذَا قَبَّلَ أُمَّهُ أَوِ ابْنَتَهُ أَوْ أُخْتَهُ إِكْرَامًا لَهُنَّ وَبِرًّا عِنْدَ قَدُومٍِ مِنْ سَفَرٍ."

اعلاء السنن میں ہے:

"التقبيل والاعتناق قد يكونان علی وجه التحية،كالسلام والمصافحة، وهما اللذان نهي عنهما في الحديث؛ لأن مجرد لقاء المسلم إنما موجبه التحية فقط، فلما سأل سائل عنهما عند اللقاء فكأنه قال : إذا لقي الرجل أخاه أو صديقه فكيف يحييه؟ أيحييه بالانحناء والتقبيل والالتزام أم بالمصافحة فقط؟ فأجاب رسول الله صلي الله عليه وسلم بأن يحييه بالمصافحة  ولايحييه بالانحناء والتقبيل والاعتناق، فثبت أن التحية بهذه الأمور غير مشروعة، وإنما المشروع هو التحية بالسلام والمصافحة، وهو ما ذهب إليه أئمتنا الثلاثة :أبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد، لأن هذه المسالة ذكره محمد في "الجامع الصغير" ونصه علي ما في البناية (4/251): محمد عن يعقوب عن أبي حنيفة قال: أكره أن يقبل الرجل من الرجل فمه أو يده أو شيئاً منه، وأكره المعانقة، ولاأري بالمصافحة بأساً"، وهذا يدل بسياقه على أن التقبيل والمعانقة الذين كرهما أبو حنيفة هما اللذان يكونان على وجه التحية عند اللقاء لا مطلقاً، ويدل أيضاً على أن المسألة مما اتفق عليه الأئمة الثلاثة؛ لأن محمداً لم يذكر الخلاف فيها، وقد يكونان علی وجه الشهوة وهما المكاعمة، والمكامعة التي يعبر عنهما بالفارسية ب"بوس وكنار" وهما لاتجوزان عند أئمتنا الثلاثة؛ لورود النهي عنهما بخصوصهما، وبالأدلة الأخرى بعمومها، وقد يكونان لهيجان المحبة والشوق والاستحسان  عند اللقاء وغيره من غير شائبة الشهوة، وهما مباحان باتفاق أئمتنا الثلاثة؛ لثبوتهما عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه؛ ولعدم مانع شرعي عنه، هذا هو التحقيق".

( إعلاء السنن 17/418، کتاب الحظر والإباحة، باب كراهة تقبيل الرجل والتزامه أخاه علي وجه التحية، إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں