بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا غصہ میں بیٹے کو کافر اور یہودی کہنا


سوال

 میں والد محترم کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا، ہفتے کا دن تھا اور میرے ہاتھ کے ناخن بڑھے تھے، وہ ناخن دیکھتے ہی مجھے غصہ ہونے لگے جب کے میں نے انہیں نہ کاٹنے کا عذر یہ بتایا کہ ناخن تراش نہ ملنے کی وجہ سے، لیکن وہ اس بات پر مجھے یہودی اور کافر بولنے لگے۔ اب میرے علم میں ہے کہ حدیثِ مبارک  میں ہے کہ اگر کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر کہا جائے تو وہ اسی کی طرف لوٹتا ہے۔ آپ سے اس بارے میں رائے چاہیے؟

جواب

اگر کوئی مسلمان دوسر ے مسلمان کو کافر یا مشرک کہے تو اگر کہنے والے کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کافر ہے تو  پھر کہنے والے پر بھی کفر لازم آتا ہے، اور  اگرکہنے والے کا یہ عقیدہ نہیں، بلکہ گالم گلوچ کے طور پر کہتاہے تو اس صورت میں کہنے والا کافر نہیں ہوگا، البتہ بغیر کسی سبب کے  ایسا کہنے والا قابلِ ملامت اور گناہ گار ہے،  اس لیے کہ کسی مسلمان کی ہتک وتوہین کبائر میں سے ہے۔

لہذا آپ کے والد نے اگر غصہ میں گالم گلوچ کے طور پر یہ جملہ کہے ہوں تو اس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوئے، البتہ غصہ میں اس قدر سخت الفاظ کہنا غلط تھا،  انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کریں، اور اس قسم کے الفاظ زبان پر لانے سے اجتناب اور احتیاط کریں، اس لیے کہ کفر وایمان کامسئلہ سنگین اور نازک مسئلہ ہے، اسے مذاق نہیں بنانا چاہیے۔ نیز   آپ بھی انہیں معاف کردیں، انہیں حکمت کے ساتھ مسئلہ سمجھا دیں، اور ان کی منشا  کی رعایت رکھنے کی کوشش کریں۔

فتاوی التاتارخانیۃ (۵۱۳/۵):

"ولوقال لمسلم أجنبي: یا کافر، أو لأجنبیة: یاکافرة، ولم یقل المخاطب شیئاً، أو قال لامرأته: یا کافرة ولم تقل المرأة شیئاً … والمختار للفتوی في جنس هذه المسائل أن القائل بمثل هذه المقالات إن کان أراد الشتم ولایعتقده کافراً لایکفر، وإن کان یعتقده کافراً فخاطبه بهذا بناءً علی اعتقاده أنه کافر یکفر". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 69):
"(وعزر) الشاتم (بيا كافر) وهل يكفر إن اعتقد المسلم كافراً؟ نعم، وإلا لا، به يفتى، شرح وهبانية، ولو أجابه: لبيك، كفر، خلاصة. وفي التتارخانية: قيل: لايعزر ما لم يقل: يا كافر بالله؛ لأنه كافر بالطاغوت، فيكون محتملاً.

(قوله: بيا كافر) لم يقيد بكون المشتوم بذلك مسلماً لما يذكره بعد (قوله: إن اعتقد المسلم كافراً نعم) أي يكفر إن اعتقده كافراً لا بسبب مكفر. قال في النهر: وفي الذخيرة: المختار للفتوى أنه إن أراد الشتم ولايعتقده كفراً لايكفر، وإن اعتقده كفراً فخاطبه بهذا بناءً على اعتقاده أنه كافر يكفر؛ لأنه لما اعتقد المسلم كافراً فقد اعتقد دين الإسلام كفراً. اهـ". 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 3027):
"(وعن ابن عمر - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيما رجل قال: كافر) بضم الراء على البناء، فإنه منادى حذف حرف ندائه كما ذكره ميرك، ويؤيده ما جاء في رواية بالنداء، وفي بعض النسخ بتنوينه على أنه خبر محذوف تقديره أنت أو هو (فقد باء بها) أي: رجع بإثم تلك المقالة (أحدهما) : وفي النهاية التزمها ورجع بها اهـ، وفي بعض نسخ المصابيح به أي: بالكفر، وهو أولى ذكره ابن الملك وفيه بحث، بل الأولى أن معناه: رجع بإثم ذلك القول المفهوم من قال أحدهما، أما القائل إن اعتقد كفر المسلم بذنب صدر منه، أو الآخر إن صدق القائل، كذا ذكره بعض الشراح من علمائنا.
وقال الطيبي: لأنه إذا قال القائل لصاحبه: يا كافر مثلاً فإن صدق رجع إليه كلمة الكفر الصادر منه مقتضاها، وإن كذب واعتقد بطلان دين الإسلام رجعت إليه هذه الكلمة. وقال النووي: هذا الحديث مما عده بعض العلماء من المشكلات من حيث أن ظاهره غير مراد، وذلك أن مذهب أهل الحق أنه لايكفر المسلم بالمعاصي كالقتل والزنا، وقوله لأخيه: كافر من غير اعتقاد بطلان دين الإسلام، وإذا تقرر ما ذكرناه فقيل في تأويل الحديث أوجه أحدها: أنه محمول على المستحل لذلك، فعلى هذا معنى باء بها أي: بكلمة الكفر أي: رجع عليه الكفر، وثانيها: أن معناه رجعت عليه نقيضته ومعصية تكفيره. وثالثها: أنه محمول على الخوارج المكفرين للمؤمنين وهذا ضعيف؛ لأن المذهب الصحيح المختار الذي قاله الأكثرون أن الخوارج كسائر أهل البدع لاتكفر. قلت: وهذا في غير حق الرافضة الخارجة في زماننا، فإنهم يعتقدون كفر أكثر الصحابة، فضلاً عن سائر أهل السنة والجماعة، فهم كفرة بالإجماع بلا نزاع. قال: وخامسها: فقد رجع إليه تكفيره وليس الراجع حقيقة الكفر، بل كفر من هو مثله، قال: لأن كفر من لايكفره إلا كافر يعتقد بطلان دين الإسلام، وقال الطيبي: وفي أكثر الوجوه أحدهما محمول على القائل: (متفق عليه) وفي الجامع الصغير: «إذا قال الرجل لأخيه: يا كافر فقد باء بها أحدهما». رواه البخاري عن أبي هريرة، ورواه أحمد والبخاري عن ابن عمرو". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108200729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں