بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا بیٹے کے لیے سود کی رقم سے کاروبار شروع کرانے کا حکم


سوال

میرے پاس نقد سرمایہ ہے اور کچھ سود کی رقم جو کہ مجھے جنرلپراویڈنٹ فنڈ ،سیونگ اکاؤنٹ اور انشورنس کے توسط سے حاصل ہوئی ہے ، میرا بیٹا اپنی پڑھائی ختم کر چکا ہے اور اس کے پاس اس کا اپناکوئی سرمایہ نہیں جس سے وہ کاروبار کر سکے۔ میرے پاس موجود اصل سرمایہ سے آج کے مہنگائی کے دور میں دوکان کی تعمیر یا خرید ممکن نہیں اور اہم بات یہ کہ بچہ بےروزگار اور مفلس ہے اور باپ کے سہارے اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرتا ہے ، تو کیا میں اپنے اصل سرمایہ اور سود سے اس کے لئے ایک دوکان تعمیر کرواکر اسے کاروبار لگوا سکتا ہوں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے اپنی سودی رقم کو اپنے بیٹے کے لیے کاروبار میں لگانا جائز نہیں ، اگر چہ وہ مفلس ہو بلکہ اسے جلد از جلد ثواب کی نیت کے بغیر مستحق زکوٰۃ افراد کو دینا ضروری ہے۔ جس طرح سائل اپنی زکوٰۃ اپنے مفلس اور مستحق بیٹے کو نہیں دے سکتا ، اسی طرح مذکورہ حرام رقم بھی اپنے بیٹے کو دینا جائز نہیں۔

 ارشادِ باری تعالی ہے :

﴿ أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرة:275)

ترجمہ:” حالانکہ اللہ  تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے ۔“

﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾ (البقرة:278)

ترجمہ:”پھر اگر تم نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ۔“

﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرة:276)

ترجمہ: ” اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔“

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن جابر بن عبدالله رضی الله تعالیٰ عنه قال: لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آکل الرّبا وموکله وکاتبه وشاهدیه، وقال: هم سواء."

(كتاب البیوع، باب لعن آکل الرّبا وموکله، رقم الحدیث:1598، ج:5، ص:50، ط:دارالمنھاج)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري" میں ہے:

"مطابقته للآية التي هي مثل الترجمة من حيث إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام."

(كتاب البيوع، باب آكل الربا وشاهده وكاتبه، رقم الحديث:4802، ج:11، ص:200، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامیٰ میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعید)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"ولايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:188، ط:رشيدية)

فتاوی شامیٰ میں ہے:

"(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلايتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادةً وولادًا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب كأولاد الأولاد."

(‌‌كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:346، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"مطلب فيمن ورث مالا حراما ... لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه."

(کتاب البیوع، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5، ص:99، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"في المجتبى: ‌مات ‌وكسبه ‌حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل."

 (‌‌كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه فلم يقبله، ج:5، ص:99، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101145

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں