بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا بیٹے کی طرف سے مہر ادا کرنے کا حکم


سوال

نکاح کے وقت مہر کی رقم پانچ ہزار طے پائی اور رخصتی سے پہلے نکاح خواں نے ادا کرنے کا کہا،  جسے میرے والد نے ادا کر دیا،  اب رہنمائی چاہیے کہ وہ حق مہر ادا ہوگیا ہے یا مجھے بحیثیت شوہر پھر سے ادا کرنا ہوگا؟ اگر ادا نہیں ہوا تو جو ادا ہوا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟  اور اس کا کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب آپ کے والد نے آپ کی طرف سے مہر کے عنوان سے رقم ادا کر دی تو مہر کی ادائیگی درست ہو گئی، آپ کے اوپر دوبارہ مہر کی ادائیگی لازم نہ ہو گی، پھر اگر آپ کے والد نے آپ کے کہنے پر مہر دیا ہو تو وہ  آپ سے ادا کردہ رقم کا  مطالبہ کر سکتے ہیں اور اگر آپ کے  کہے  بغیر دیا ہو تو اُن کو  آپ سے مطالبہ کرنے کا حق نہ ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 140):

"(قوله: وصح ضمان الولي مهرها) أي سواء ولي الزوج أو الزوجة صغيرين كانا أو كبيرين، أما ضمان ولي الكبير منهما فظاهر لأنه كالأجنبي. ثم إن كان بأمره رجع وإلا لا."

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں