بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا بہو کا مہر اپنے ذمہ لینا


سوال

ہمارے والد مرحوم نے اپنے بیٹے کی شادی کے وقت اپنے بھائی ( لڑکی کے والد)  کے مطالبے پر اپنے ملکیتی گھر جس کا ٹوٹل ایریا دس مرلے تھا ، اس میں سے پانچ مرلے حق مہر میں اپنی بھتیجی کے نام پر نکاح نامے میں لکھ کر دیا تھا،  پھر کچھ عرصے بعد وہ گھر اپنے دوسرے بیٹے کو زبانی طور پر دے دیا،  اور پھر کچھ وقت کے بعد زبانی طور پر وصیت کی کہ درج بالا گھر تمام ورثاء ( چار بیٹوں، تین بیٹیوں اور ہماری والدہ ) کے درمیان شرعی حساب سے تقسیم کر دیا جائے،  ان کے انتقال کے بعد جس بیٹے کو مکان دیا گیا تھا اس نے تو ان کی وصیت قبول کرلی،  لیکن ان کی (بھتیجی) بہو نے پانچ  مرلے حق مہر میں اس جگہ کا مطالبہ کر دیا ہے،  اس پر نصف ورثاء  اختلافات ختم کرنے کے لیے اس کا یہ مطالبہ مان رہے ہیں،  لیکن نصف انکار کر رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ  والد صاحب نے اپنی زندگی جو زبانی وصیت سب کے سامنے کی ہے، اس پر عمل کیا جائے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کے والد نے جب بہو کا مہر اپنے مذکورہ گھر کا نصف حصہ یعنی 5 مرلہ جگہ  نکاح نامہ میں لکھ کر اپنے ذمہ لے لیا تھا، تو اب  وہ  مہرادا کرنا  والد پر لازم تھا، اور اس گھر کے نصف یعنی پانچ مرلہ  پر بہو ہی کا حق تھا،  لہذا سائل کی بھابھی کا  گھر کے پانچ مرلہ  کا مطالبہ شرعاً درست ہے ، اور  ورثاء  کا  اس میں کوئی حق نہیں ،  سائل کے والد کا یہ گھربعد میں  اپنے بیٹے کو زبانی طور پر بغیر قبضہ و تصرف   کے دینے کا شرعا کوئی اعتبار نہیں، اس سے یہ گھر اس بیٹے کا نہیں ہوا،   اسی طرح پورے گھر کی وصیت بھی درست نہیں، وصیت تو اولاد کے حق میں ویسے بھی معتبر نہیں ہوتی، لہذا مذکورہ صورت میں نصف مکان 5 مرلہ کی  مالک مذکورہ بہو ہوگی، ااور  گھر کا  بقیہ پانچ مرلہ تمام ورثاء پر ان کے شرعی  حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا۔

بقیہ  نصف حصے کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  مرحوم  پر کوئی قرضہ ہو تو اسے  کل مال سے ادا کرنے کے بعد اگر   مرحوم  نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ سے ادا کرنے کے بعدباقی ترکہ کو  88  حصوں میں تقسیم کرکے  مرحوم  کی بیوہ کو 11 حصے، ہرہر بیٹے کو 14 حصے اورہرہر بیٹی  کو 7 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہوگی:

میت: 8 / 88

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
17
1114141414777

یعنی 100 فیصد میں سے 12.5 فیصد بیوہ کو، 15.90 فیصد ہرہر بیٹے کو اور 7.95 فیصد  ہرہر بیٹی کو ملیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"[فرع] في الفيض: ولو أعطى ضيعة بمهر امرأة ابنه ولم تقبضها حتى مات الأب فباعتها المرأة لم يصح إلا إذا ضمن الأب المهر ثم أعطى الضيعة به فحينئذ لا حاجة إلى القبض."

(باب المہر، مطلب في منع الزوجة نفسها لقبض المهر، ج:3، ص:143، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں