بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا بچوں کی پرورش اور خرچے سے عاجز ہونے کی صورت میں ان کی پرورش اور نفقے کا حکم


سوال

میرا بھائی نشہ کرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا بیوی کے ساتھ جھگڑا ہوتا رہتا ہے،ان کے تین بیٹے ہیں، ایک کی عمر تین سال ہے،دوسرا سات سال،اور تیسرا دس سال کا ہے،تین، چار ماہ قبل اس کا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا ہوا تو بیوی اپنے گھر چلی گئی، شروع میں بچوں کی پرورش بھی وہ خود کرتی رہی،پھر اس سے بچے سنبھالے نہیں جا رہےتھے تو ہمارے پاس بھیج دیے، اب میرا بھائی نشہ کرنے کی وجہ سے بچوں کی پرورش کر سکتا ہے اور نہ ہی خرچہ اٹھاسکتا ہے،اور بچوں کا دادا بھی فوت ہوچکا ہے، جب کہ میاں بیوی کا نکاح برقرار ہے، پوچھنا یہ ہے کہ اب بچوں کی کرورش کون کرے گا؟ اور ان کا خرچہ کس کے ذمہ ہے؟ کیا میں ان کی پرورش کرسکتا ہوں؟

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے جس  بھتیجے کی عمر تین سال ہے،اس کی پرورش کا حق والدہ کو حاصل ہے،باقی بچوں کی پرورش کا حق ان کے والدکو حاصل ہے، لیکن اگر والد پرورش نہیں کرسکتا اور بچوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو سائل  مذکورہ دونوں بچوں کی پرورش کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ بچوں کی پرورش میں ان کی  جسمانی  نشو  و نما کے ساتھ ساتھ    ذہنی ، اخلاقی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھا جائے، نیز   بچوں کی دینی اصلاح اور تعلیم کا   بھی خصوصی اہتمام کریں۔

باقی بچوں کا خرچہ ان کے والد پر لازم ہے، لیکن اگر والد نشے کی لت لگنے کی وجہ سے کمانے کی صلاحیت نہ رکھتا  ہو  اور نہ اس کے پاس اتنا مال ہو کہ جس سے بچوں کا خرچہ پورا کیا جاسکے، نیز والدہ بھی اتنی وسعت نہ رکھتی ہو کہ وہ بچوں کا خرچہ برداشت کرسکے ( جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے) اور بچوں کا اپنا مال بھی موجود نہ ہواور سائل کے علاوہ ان بچوں کاکوئی اور تایا، چچا بھی نہ ہو  تو سائل پر بحیثیت  چچا ہونے کے ان بچوں  کا خرچہ  لازم ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"والأصل فيها النساء؛ لأنهن أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر ولكل واحد منهما شرط فلا بد من بيان شرط الحضانتين وأما شرطها فمن شرائطها العصوبة فلا تثبت إلا للعصبة من الرجال ويتقدم الأقرب فالأقرب الأب ثم الجد أبوه وإن علا ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب."

(کتاب الحضانۃ،فصل فی بیان من لہ الحضانہ،ج4،ص41 تا43،ط:سعید)

الدر مع الرد میں ہے:

’’(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب‘‘.

 (3/566، باب الحضانۃ، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(وتجب) النفقۃ بانواعھا علی الحر( لطفلہ) یعم الانثی والجمع."

( باب النفقۃ،ج3،ص612،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

إذا لم يكن للأب مال والجد أو الأم أو الخال أو العم موسر يجبر على نفقة الصغير ويرجع بها على الأب إذا أيسر، وكذا يجبر الأبعد إذا غاب الأقرب؛ فإن كان له أم موسرة فنفقته عليها؛ وكذا إن لم يكن له أب إلا أنها ترجع في الأول. اهـ فتح. قلت: وهذا هو الموافق لما يأتي من أنه لا يشارك الأب في نفقة أولاده أحد فلا يجعل كالميت بمجرد إعساره لتجب النفقة على من بعده بل تجعل دينا عليه؛ وسيذكر الشارح تصحيح خلافه وأنه لا بد من إصلاح المتون؛ ويأتي الكلام فيه، وهذا إذا لم يكن الأب زمنا عاجزا عن الكسب وإلا قضي بالنفقة على الجد اتفاقا؛ لأن نفقة الأب حينئذ واجبة على الجد فكذا نفقة الصغار، ولا يخفى أن كلامنا الآن في الأب العاجز عن الكسب تأمل

(کتاب الطلاق،باب النفقۃ،ج3،ص613،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں