بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولاد کو جائیداد ہبہ کرنا


سوال

میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے ، انہوں نے اپنی زندگی میں میری چار بہنوں  میں سے ہر ایک کو 200 گز کا پلاٹ دیا، اور ساتھ میں یہ کہا کہ میں نے بیٹیوں کو یہ چار پلاٹ دے دیئے،واضح رہے کہ قبضہ بھی ان بیٹیوں کو دے دیا تھا ،

اور کہا اب یہ گھر میرے پانچ بیٹوں کا ہے، جس میں ہم بھائی رہتے ہیں، ہر بھائی کو الگ الگ پورشن دیا ہے،والد نے اپنی زندگی میں ہر بھائی کو الگ پورشن دے کر سیپرٹ ہر ایک کے قبضے میں دیا اور ہر ایک الگ الگ پورشن میں رہتا ہے۔کسی کا دوسرے کے پورشن میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، ہر ایک کے نام بھی کردیا تھا، 

جس کے گواہ میرے چچا ، چچازاد بھائی، میرا بڑ ابھائی اور میری بہن ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ جس گھر میں ہم رہتے ہیں کیااس گھر میں بہنوں کا حصہ ہے؟کیوں کہ یہ گھر والد نے اپنی زندگی میں ہم پانچ بھائیوں کے نام لیز کروادیا تھا۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ کے والد مرحوم نے جو پلاٹ اپنی چاروں بیٹیوں کے نام کرکے انہیں قبضہ دے دیا تھا نیز پانچوں بیٹوں کو جوگھر الگ الگ  پانچ منزلہ ان کے نام کرکے ہر ایک کے قبضے اور تصرف میں دے دیا تھا تو اس سے ہبہ (گفٹ )مکمل ہوگیا۔اب بیٹیوں کو دیئے گئے پلاٹوں میں بیٹوں کا کوئی حصہ نہیں ، نیزاگر  بیٹوں کو بھی اپنے گھر کے پانچ پورشن پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک کے پورشن کی نشاندہی کر کے اپنے اپنے پورشن پر عملاً قبضہ و تصرف دے دیا، والد کی کوئی عملداری اس میں نہیں ہے تو ہر ایک شرعاً اپنے اپنے حصے کے مالک ہیں۔اس  گھر  میں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضاً غير مشاع مميزاً غير مشغول)". 

(کتاب الہبۃ:ج: ۵،ص: ۶۸۸، ط: سعید)

تنویر الابصار میں ہے:

"وتتم الهبة بالقبض الکامل ولو الموهوب شاغلاً لملک الواهب". 

(شامی، کتاب الہبۃ:ج: ۵،ص: ۶۹۰، ۶۹۲ ، ط: سعید)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"لایثبت الملک للموهوب له إلا بالقبض وهو المختار، هکذا في فصول العمادیة".

(كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز:ج:۴،ص: ۳۷۸، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101884

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں