بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا اپنی زندگی میں اپنا سب مال بعض اولاد کو دے دینا اور بعض کو محروم کرنا


سوال

باپ اپنی زندگی میں اپنا مال تقسیم کرے،  7 بیٹیوں 4 بیٹوں میں سے صرف 3 بیٹوں کو سارا مال دے دے تو اس باپ کے لیے کیا حکم ہے ، ا ور ان 3 بیٹوں کے  لیے کیا حکم ہے جنہوں نے مال لیا ؟

جواب

واضح رہے کہ  ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والد کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا،  تاہم   اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے   اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلامًا، فقال: «أكلّ ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه». وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»."

(مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط؛ قدیمی)

ترجمہ: حضرت نعمان ابن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط؛ دارالاشاعت)

  اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے  اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے،  یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

        البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بنسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت ودِین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر  والد نے اپنا  تمام  مال   اپنے تین بیٹوں کو دے دیا  دوسری اولاد کو  بلاکسی وجہ  محروم کیا تو  ان کا یہ عمل درست نہیں تھا، والد کا صرف  تین بیٹوں کو دینا اور بیٹیوں  اور ایک بیٹے کو محروم رکھنا   جائز نہیں  تھا ، شرعی اعتبار سے یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے۔

 ایسی صورت حال میں  والد کو چاہیے کہ  وہ    دیگر اولاد کو بھی اس کے بقدر حصہ دے دے؛ تاکہ آخرت میں پریشانی نہ ہو ، اور والد کے پاس اگر کچھ اور  مال  نہ ہو تو مذکورہ بیٹوں  کو  چاہیے کہ والد کو اس گناہ سے بچانے کے لیے وہ  اپنے بھائی بہنوں  کو بھی حصہ دے دیں،  اور آپس میں معافی تلافی کرلیں؛ تاکہ کسی کو بھی آخرت میں پریشانی کا سامنا نہ ہو ۔ 

     شرح المجلۃ میں ہے:

"لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".

 (1/264،  مادۃ: 97، ط: رشیدیہ)

         فتاوی شامی میں ہے: 

"و في الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، و إن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى". 

(5/696، کتاب الھبۃ، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين ". 

(7/288، کتاب الھبۃ، ط: رشیدیہ)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

 (4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)

وفیہ ایضا:

"ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم وفيما سوى ذلك له حق الرجوع إلا أن بعد التسليم لاينفرد الواهب بالرجوع، بل يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضا أو قبل التسليم".

 (4/385، الباب الخامس فی الرجوع فی الھبۃ ،  ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں