بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا اپنی بہو کے ساتھ سختی سے پیش آنا اور بیٹے کو اس کی بیوی سے دور کرنے کا حکم


سوال

میں کراچی میں کاروبار کرتا ہوں، میری اہلیہ میرے والدین کےساتھ گاؤں میں رہتی ہے، میرے والد صاحب سخت مزاج آدمی ہیں، ان کی وجہ سے میری  اہلیہ کو کافی ناچاقیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، والد صاحب یہ بھی اجازت نہیں دیتے کہ میں اپنی بیوی کو اپنے پاس بلالوں (انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے)، نیز میرے والد اگر  مجھے گاؤں  بلائے تو میں جاسکتا ہوں ورنہ مجھے اجازت نہیں ہے،میری اہلیہ ان کے سخت مزاج سے اور میرا فراق برداشت نہیں کرسکتی اب آپ راہ نمائی فرمائیں کہ میں اس معاملے میں کیا کروں کہ میرے والد اور بیوی دونوں خوش رہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے والدین اور بیوی ،بچوں میں سے ہر ایک کے حقوق مقرر کر دیے ہیں، دونوں میں سے کسی بھی ایک کی حق تلفی کرناجائز نہیں ،لیکن ساتھ  ہی ساتھ ناحق بات اور گناہ وظلم کی بات میں کسی کی اطاعت کی گنجائش  نہیں ہے،  لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد کاسائل کی بیوی کے ساتھ سختی سے بات کرنابے جاغصہ کرنا جائز نہیں ہےاسی طرح سائل کو اس کے بیوی سے دور رکھنا اور ساتھ لے جانے سے منع کرناشرعًا واخلاقًا کسی طرح بھی جائز نہیں خاص کر جب شہوت کا غلبہ ہو  ، سائل کے والد کو چاہیے کہ وہ بیٹے کو اپنی بیوی اپنے پاس بلانے سے نہ روکے ورنہ والد گناہ گار ہوگا اور بیٹے کو اپنی بیوی اپنے پاس کراچی میں بلانے کا حق ہے، اگر اس سے والد ناراض ہو تو بیٹا گناہ گار نہیں ہوگا،البتہ والدین کے ساتھ قطع تعلقی کرنا   کسی حال میں جائز نہیں،اُن کی ناجائز بات نہ مانی جائےباقی اُن کے ساتھ حسنِ سلوک اورصلہ رحمی برقرار رکھی جائے، دونوں جانب کے حقوق کی رعایت رکھی جائے، ممکن ہوسکے توحکمت وبصیرت کے ساتھ خاندان کے کسی بڑے  کے ذریعے والدکوایسے طریقے پر سمجھانے کاانتظام کیاجائے جس سے اُن کی دل آزاری نہ ہو    ۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ."(النساء: 19)

"ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کرو، اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

 حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي."

(مشکاة المصابیح، باب عشرة النساء،2/282 ، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مؤمنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔"

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."

(مشکاة المصابیح، باب عشرة النساء2/281،، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں"۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى: "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي" وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً"والمرأة أيضاً مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان."

( البَاب الأوَّل: الزّواج وآثاره، 9 /6598 -6599، ط: دار الفكر)

التفسیر المظہری میں ہے:

"(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة او إتيان مكروه تحريما لان ترك الامتثال لامر الله والامتثال لامر غيره اشراك معنى ولما روينا من قوله عليه السّلام لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- ويجب إطاعتهما إذا امرا بشئ مباح لا يمنعه العقل والشرع."

(سورۃ لقمان،ج7،ص256،ط؛مکتبۃ الرشدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101731

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں