بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا اپنے انتقال کے بعد اپنا ترکہ بیٹوں کا قرار دینا اور بیٹیوں کو محروم کرنا


سوال

میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، میرے شوہر کا کاروبار ہے جو اب ہمارا بیٹا سنبھال رہا ہے، جب وہ خود کاروبار سنبھالتے تھے اس وقت انہوں نے اپنی تینوں بیٹیوں کو ایک کروڑ پچاسی لاکھ دیے تھے، مطلب یہ پوری رقم تینوں میں تقسیم ہوئی، اس وقت ان تینوں میں سے میری بڑی بیٹی کو مکان کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی تو میرے شوہر نے اس کو اور باقی بیٹیوں کو بھی پیسے دیے اور کہا کہ یہ لو یہ تمہارا ہے اور باقی میرے بیٹے کا ہے۔ میں اپنے شوہر سے یہ کہتی رہتی ہوں کہ آپ کی جائیداد تو بہت ہے اور اس میں بیٹیوں کا بھی حصہ ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں سب بیٹے کا ہے۔ میرے شوہر حیات ہیں۔ کیا مرنے کے بعد بیٹیوں کا میراث/جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہوتا؟ شوہر کیا صحیح کہتے ہیں؟ بیٹیاں اس فیصلے پر خوش نہیں تھیں، باپ کی وجہ سے خاموش رہیں، اب بھی راضی نہیں ہیں۔ ہم اس وقت جس گھر میں رہتے ہیں اس گھر کی مالیت تقریباً 10 کروڑ ہے، اور ایک میرا بھی گھر ہے جس کی مالیت تقریباً 2 کروڑ ہے، اب آپ شریعت کی روشنی میں بتائیے کہ میری بیٹیوں کو اب اس جائیداد میں حصہ ملے گا یا جو ان کو دے دیا وہ ہی ان کا حصہ تھا؟ بیٹا جو کاروبار سنبھال رہا ہے کیا سارا کاروبار اور جائیداد صرف اسی کی ہے؟ میں اپنے بیٹے سے بھی کہتی ہوں کہ بیٹا میرے مرنے کے بعد اگر تم نے اپنی بہنوں کو میراث میں حصہ نہیں دیا تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گی تو اس پر وہ کچھ نہیں کہتا، خاموش رہتا ہے۔ میرے شوہر کہتے ہیں کہ بیٹیوں کو جو دے دیا وہ ہی ان کا حصہ تھا، اب جائیداد میں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں، یہ سب جائیداد اب بیٹے کی ہے۔ گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کے حوالوں کے ساتھ تفصیل سے وضاحت فرمائیں؛ تاکہ میرے شوہر اور بیٹے کو بھی بات سمجھ میں آجائے!

جواب

         واضح رہے کہ  ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے، نیز والد کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتاہے،  تاہم   اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے   اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلامًا، فقال: «أكلّ ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه». وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". (مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط؛ قدیمی)

ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟ انہوں نے کہا:  ”نہیں“، آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر (نعمان سے بھی) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط؛ دارالاشاعت)

        اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے  اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  اور اپنی اہلیہ کے لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے، اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

        البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بنسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت و دِین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

          نیز   والدین کے انتقال کے بعد  والدین کے ترکہ میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق و حصہ ہوتا ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق و حصہ ہوتا ہے،  والد کے انتقال کے بعد  ان کے ترکہ پر  بیٹوں کا  خود  تنِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے،  حدیثِ مبارک میں اس پر  بڑی وعیدیں آئی ہیں :

حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

        ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

والد اگر زندگی میں بیٹیوں کو حصہ دینے کا منع بھی کردے تب بھی والد کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں سے  بیٹیاں اپنے شرعی  حصہ کی حق دار ہوں گی، البتہ والد نے اپنی زندگی میں اپنی جس اولاد کو جو چیز باقاعدہ قبضہ اور تصرف کے ساتھ ملکیت میں دے دی تو  وہ اسی کی شمار ہوگی، اور وہ ترکہ میں تقسیم نہیں ہوگی، لیکن والد کو  اپنی زندگی میں اولاد  کو گفٹ کرنے میں برابری ضروری ہے، جیساکہ اس کی تفصیل ماقبل میں ذکر ہوئی ہے۔

          ملحوظ رہے کہ اگر کوئی وارث اپنی رضامندی سے خود کچھ مال وغیرہ لے کر میراث سے دست بردار ہوجائے تو میراث سے اس کا حق ساقط ہوجائے گا، لیکن یہ اس وقت ہوگا جب کہ وارث خود اس پر راضی ہو، جب کہ مذکورہ صورت میں بیٹیاں راضی نہیں ہیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

 (مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

           وفیہ ایضاً: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

  (1/266، باب الوصایا، الفصل الثالث،  ط: قدیمی)

تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:    

" الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط".

 (ج؛7/ص؛505 / کتاب الدعوی، ط :سعید)

فقط واللہ اعلم   


فتوی نمبر : 144203201120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں