1۔دادا کا گھر تھا، اس میں سات پورشن تھے،دادا نے اپنی تمام اولاد یعنی چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کے لیے پورشن مقرر کیے اور اپنی زندگی میں ہی تمام اولادمیں سےہرایک کوالگ الگ پورشن پر قبضہ اور تصرف دےدیا تھا، سوال یہ ہے کہ دادا کی طرف سے میرے والد کو دئیے ہوئے پورشن میں میرے بھائی یعنی اصل مورث(دادا) کے پوتے کا بھی حصہ ہے یا نہیں؟ میرے والد صاحب حیات ہیں۔
2۔دادا کی طرف سےوالد صاحب کو دئیے گئے پورشن پر والد صاحب کی اجازت سے میرے ایک بھائی نے تعمیر کرائی ہے، لیکن تعمیر کراتے وقت کوئی معاہدہ نہیں ہوا، اس کے باوجود اس پر خرچ کردہ رقم والد صاحب نے اس کو دے دی، بھائی کا یہ رقم لینا کیسا ہے؟ بھائی رقم لینے سےانکار کررہا ہے، اور اس پر مزید رقم کا مطالبہ کررہا ہے، ہمارے ساتھ تحریر موجود ہے،جس میں لکھا ہوا ہے کہ بھائی نے اپنی خرچ کی ہوئی رقم واپس لے لی ہے، میر اکوئی حساب باقی نہیں ہے،تو اس کے بعدبھائی کا مزید رقم کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟
1۔ صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل کے دادا نے اپنی زندگی میں اپنی تمام اولاد یعنی بیٹے اور بیٹیوں کے لیے گھر میں الگ الگ پورشن مقرر کرکے ہر ایک کو اس کے پورشن پر قبضہ اور تصرف بھی دے دیا تھا، تو دادا کی اولاد یعنی چار بیٹے اور دو بیٹیاں اپنے مقرر کردہ حصہ پر قبضہ کرنے کے ساتھ اس کے مالک بن چکے تھے،لہذااب سائل کے مذکورہ بھائی(دادا کے پوتے) کا سائل کے والد کی زندگی میں ان کو دئیے ہوئے پورشن میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
2۔ سائل کے بھائی نے سائل کے والد کی اجازت سے مذکورہ پورشن میں تعمیر کی تھی، اگر واقعتاً سائل کے بھائی نے اپنی لگائی ہوئی رقم واپس لے لی ہے، تو اب اس کا انکار کرنا درست نہیں، اور اس پرمزید رقم کا مطالبہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الهبة....وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له."
(کتاب الھبة، الباب الثاني، ج: 4، ص: 374، ط: دار الفکر)
وفيه ايضاً:
"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. "
(کتاب الھبة، الباب الثاني، ج: 4، ص: 377، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."
(كتاب الهبة، ج: 5، ص: 690، ط: سعید)
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ميں ہے:
"(ومن عمر دار زوجته بماله) أي بمال الزوج (بإذنها) أي بإذن الزوجة (فالعمارة) تكون (لها) أي للزوجة؛ لأن الملك لها وقد صح أمرها بذلك (والنفقة) التي صرفها الزوج على العمارة (دين له) أي للزوج (عليها) أي على الزوجة؛ لأنه غير متطوع فيرجع عليها لصحة الأمر فصار كالمأمور بقضاء الدين."
(كتاب الخنثى، مسائل شتى، ج: 2، ص: 743، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102569
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن