بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے پلاٹ پر تعمیر کا حکم


سوال

ہمارے والد اور والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، اپنی زندگی میں والد نے ایک پلاٹ خریدا اور اس کی تعمیر کی اور اس تعمیر میں انہوں نے اور ان کے دو بیٹوں نے شرکت کی، آج والد محترم کے انتقال کے بعد وہ دو بیٹے جو کہ اس گھر میں  بارہ  سال سے ان کے ساتھ  رہ رہے ہیں، وہ اپنی لگائی ہوئی رقم کا تقاضا کر رہے ہیں، ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں۔

ان دو بیٹوں نے آج سے تقریباً  بارہ  سال پہلے بارہ یا پندرہ لاکھ روپے لگائے تھے، اس وقت والد صاحب نے ان دونوں کو کہا کہ آپ دونوں اس گھر میں رہو گے، وفات تک والد بھی اُسی مکان میں رہے، باقی ہم تین بھائی اور دو بہنیں الگ رہ رہے ہیں، مذکورہ رقم لگاتے وقت والد صاحب نے ان سے کوئی بات طے نہیں کی تھی، یہ بھائی جو بارہ سال سے اس گھر میں رہ رہے ہیں، کیا ان سالوں کا کرایہ ان کے ذمہ لازم ہے؟ وضاحت: کرایہ کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب دو بھائیوں نے  والد کے ساتھ اُن کے پلاٹ پر مکان کی تعمیر میں شرکت کی اور تقریباً بارہ یا پندرہ لاکھ روپے ملائے، اُس وقت چونکہ قرض کی کوئی صراحت نہیں ہوئی تھی، اس لیے خرچ کی ہوئی رقم کی حیثیت قرض کی نہیں ہوئی، بلکہ  اِس رقم کا خرچ کرنا  دونوں کی طرف سے والد کے اوپر احسان ہوا،  لہذا  اِن دونوں بھائیوں کو اس مکان کی تعمیر میں خرچ کی گئی رقم کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں۔

پھر  یہ مکان چونکہ مالک مکان (والد) کی طرف سے  بیٹوں کو کرایہ پر نہیں دیا گیا اور  نہ ہی آپس میں  ایسا کوئی معاہدہ ہوا ہے؛ اس لیے اس مکان میں رہنے والے بیٹوں پر گزشتہ عرصہ کا کرایہ بھی لازم نہیں ہو گا۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر  میں ہے:

ومن عمر دار زوجته بماله أي بمال الزوج بإذنها أي بإذن الزوجة فالعمارة تكون لها أي للزوجة لأن الملك لها وقد صح أمرها بذلك والنفقة التي صرفها الزوج على العمارة دين له أي للزوج عليها أي على الزوجة لأنه غير متطوع فيرجع عليها لصحة الأمر فصار كالمأمور بقضاء الدين۔

 وإن عمرها أي الدار لها أي للزوجة بلا إذنها أي الزوجة فالعمارة لها أي للزوجة وهو أي الزوج في العمارة متبرع في الإنفاق فلا يكون له الرجوع عليها به وإن عمر لنفسه بلا إذنها أي الزوجة فالعمارة له أي للزوج لأن الآلة التي بنى بها ملكه فلا يخرج عن ملكه بالبناء من غير رضاه فيبقى على ملكه فيكون غاصبا للعرصة وشاغلا ملك غيره بملكه فيؤمر بالتفريغ إن طلبت زوجته ذلك كما في التبيين لكن بقي صورة وهي أن يعمر لنفسه بإذنها ففي الفرائد ينبغي أن تكون العمارة في هذه الصورة له والعرصة لها ولا يؤمر بالتفريغ إن طلبته انتهى ۔

(4/ 488/ دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں