بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے مال سے غبن کرنا


سوال

ایسا کرنا کیسا ہے کہ والد نے کرایہ کی غرض سے کوئی مکان بنایا، جس کی دیکھ ریکھ اپنے بیٹے کے ذمہ کردی، اب اگر بیٹے نے  والد کو بتایا کہ مکان کا کرایہ 12 ہزار ہے،  جب کہ حقیقت میں اس نے 13 ہزار میں کرایہ پر دیا ہے،  اور 12 ہزار روپے والد کو دے کر باقی 1 ہزار اپنے پاس رکھ لیے؟اسی طرح اگر بیٹے نے کوئی مکان کرایہ پر دیا، لیکن والد کو اس کے بارے میں بتائے ہی نہ،ا ور سارا کرایہ اپنے پاس رکھ لے؟ اوربیٹے کا کہنا ہے کہ والد ہمیں خرچہ نہیں دیتے ۔برائے کرم مذکورہ دونوں صورتوں کا جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں بیٹے کا  والد کے مکان کو 13 ہزار روپے کرایہ میں دے کر،والد کو 12 ہزا روپے بتانا،اور ایک ہزار روپے اپنے پاس رکھ لینا،اور اسی طرح والد  کا مکان  کرایہ پر دے کر،  کرایہ  اپنے پاس رکھ لینااور والد سے یہ معاملہ چھپالینا، شرعاً یہ دونوں صورتیں جائز نہیں، کسی کے لیے بھی کسی مسلمان کا مال اس کی رضامندی کے بغیر کھانا جائز نہیں،نیز  اگر مذکورہ بیٹابالغ   اور کمائی کے قابل ہے،تواس کا خرچہ والد پر لازم نہیں، اور اگر نابالغ ہے یامعذوری یاتعلیم میں مصروف ہونے کی بناء پر کام کاج نہیں کرسکتا،تو اس کو بھی مذکورہ طریقہ پر والد سے خرچہ وصول کرنا درست نہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"( ‌لا ‌يحل ‌مال ‌امرئ) أي: مسلم أو ذمي (إلا بطيب نفس) أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان، والدارقطني في المجتبى."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، 5/ 1974 الناشر: دار الفكر، بيروت - لبنان)

وفیہ ایضاً:

"(وعن أبي بكر الصديق - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ملعون) أي: مبعود عن الخير (من ضار مؤمنا) أي: ضررا ظاهرا (أو مكر به) أي: بإيصال الضرر إليه خفية (رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب) . قال صاحب التصحيح وفي سنده أبو سلمة الكندي لا يعرف عن فرقد السنجي، وثقه ابن معين وضعفه غيره ذكره ميرك."

(كتاب الأداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ٣١٥٦/٨، ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يجب على الأب ‌نفقة ‌الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ٥٦٣/١، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں