بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے کہنے پر بیوی کو معلق طلاق دینے کا حکم


سوال

 میں نے والد صاحب کو بتائے بغیر ایک نکاح کیا تھا اور تقریبا دو سال ہونے کو ہیں اب میری ایک بیٹی ہے اور اہلیہ دوبارہ حمل سے ہیں ، والد صاحب کی دو سال سے مجھے سے بات چیت نہیں اور دو سال تک یہی کہتے رہے کہ اس کو طلاق دو تو میں صلح کرتا ہوں،  اور جہاں میں چاہتا ہوں،  وہیں شادی کرواؤں گا،  میں نے یہ بات نہیں مانی لیکن اب میرے والد کی شرط تبدیل ہوگئی ہے کہ اپنی پہلی بیوی کو اس کے والدین کے پاس ملتان پہنچادو بچوں سمیت اوراگر وہ کراچی میں زندگی بھر جب بھی داخل ہوئی تو لکھ کر دو کہ میری طرف سے اسے طلاق ہوجائے گی اور ہم تمہاری شادی کراچی میں کریں گے اور آپ کو کراچی میں ہی رہنا ہوگا ہمیشہ کے لیے ۔

میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں والد صاحب کو راضی کرنے کے لئے ایسا لکھ دوں تو کیا میری اہلیہ کبھی میری رہائش گاہ کراچی نہیں آسکتی ، اور اگر آگئی تو کیا طلاق واقع ہوجائے گی ، کیوں کہ میں چاہتا ہوں کہ میں عدل و انصاف کروں تو کیا میں اپنی دوسری شادی کے بعد اپنی بیوی کو کراچی میں نہیں رکھ سکوں گا اور اپنے بچوں کی تربیت بھی احسن انداز میں نہیں کر پاؤں گا ، وضاحت فرمادیں اور کو ئی ایسا حل بتائیں کہ والدین بھی راضی ہوجائیں اور میرا نکاح بھی باقی رہے بیویوں میں کل کو میں انصاف قائم کرسکوں ۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اگر والد کے کہنے پر لکھے"اگر میری بیوی زندگی بھر کبھی کراچی داخل ہوگئی تو  میری طرف سے  اسے طلاق" تو اس طرح لکھنے سے سائل کی بیوی کا کراچی آنے پر طلاق معلق ہوجائے گی، پھر جب  کبھی  وہ کراچی آئے گی تو اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی ، اور سائل کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوگا۔

ملحوظ رہے کہ اگر سائل کے   والد  کسی  شرعی  وجہ  کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے  اور  بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، البتہ اگر  بیوی ان کے  ساتھ  اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، ان کی گستاخی کرتی ہواور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آتی ہو تو پھر  والد کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی،ور اگر بیوی میں ایسی کوئی بات نہیں تو اس صورت میں والد کی بات  ماننا لازم نہیں ہے؛ اس لیے   کہ حلال کاموں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ  بات طلاق دینا ہے؛ لہٰذا  حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے، نیز  جس طرح  اگر والد حق پر ہوں تو والد کی اطاعت واجب ہے، اسی طرح اگر بیوی حق پر ہو تو والد کی اطاعت ظلم ہے، اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔

لہذا سائل کو چاہیے کہ محلہ کے امام یا  بڑوں کے ذریعے والد صاحب کو سمجھانے کی کوشش کرے تاکہ بلا وجہ طلاق کی نوبت نہ آئے ،اور نہ بیویوں کے درمیان عدم برابری رہیں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"واذا أضافه إلی الشرط، وقع عقیبَ الشرط اتفاقاً، مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار، فأنت طالق".

(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط ونحوه، الفصل الثالث في تعلیق الطلاق بکلمة إن و إذا و غیرها،ج:1، ص:420،  ط:درالفكر)

الأصل لمحمد بن الحسن:

"لو قال: إذا دخلت الدار فأنت ‌طالق، ومتى ما دخلت الدار فأنت ‌طالق، وإنما يقع عليها الطلاق إذا دخلت الدار مرة واحدة. وإذا قال: كلما دخلت الدار فأنت ‌طالق، فكلما دخلت الدار وهي ملكه فهي ‌طالق."

 (كتاب الطلاق، ‌‌باب الطلاق لغير السنة، ج:4، ص:471، ط:دار ابن حزم، بيروت)

الاختيار لتعليل المختار :

"وألفاظ الشرط: " إن " و" إذا " و" إذا ما " و" متى " و" ‌متى ‌ما " و" كل " و" كلما "، فإذا علق الطلاق بشرط وقع عقيبه وانحلت اليمين وانتهت إلا في " كلما "، ولا يصح التعليق إلا أن يكون الحالف مالكا كقوله لامرأته: إن دخلت الدار فأنت ‌طالق."

(كتاب الطلاق، تعليق الطلاق، ج:3، ص:140، ط:دار الكتب العلمية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے:

عن معاذ قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لا تشرك بالله شيئا، وإن قتلت وحرقت، ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك، ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا؛ فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله، ولا تشربن خمرا فإنه رأس كل فاحشة، وإياك والمعصية؛ فإن بالمعصية حل سخط الله، وإياك والفرار من الزحف، وإن هلك الناس، وإذا أصاب الناس موت وأنت فيهم فاثبت، (أنفق على عيالك من طولك، ولا ترفع عنهم عصاك أدبا وأخفهم في الله". رواه أحمد."

وتحت هذا الحديث:

(عن معاذ) رضي الله عنه (قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم) أي أمرني (بعشر كلمات) بعشرة أحكام من الأوامر والنواهي لأعمل بها وأعلمها الناس (قال: (لا تشرك بالله شيئا) أي بقلبك، أو بلسانك أيضا، فإنه أفضل عند الإكراه (وإن قتلت وحرقت) أي وإن عرضت للقتل والتحريق، شرط جيء به للمبالغة، فلا يطلب جوابا، قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل من صبر المكره على الكفر على ما هدد به، وهذا فيمن لم يحصل بموته وهن الإسلام، وإلا كعالم وشجاع يحصل بموته ذلك فالأولى له أن يأتي بما أكره عليه ولا يصبر على ما هدد به؛ رعاية لأخف المفسدتين، وأما باعتبار أصل الجواز فيجوز له أن يتلفظ وأن يفعل ما يقتضي الكفر، كسب الإسلام وسجودا لصنم إذا هدد، ولو بنحو ضرب شديد، أو أخذ مال له وقع كما أفاد ذلك قوله تعالى: {من كفر بالله من بعد إيمانه إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان} [النحل: 106] الآية. (ولا تعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( وإن أمراك أن تخرج من أهلك )أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضا أي: لا تخالف واحدا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلا يلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاء شديدا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلا يكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولا يلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله."

(‌‌كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، الفصل الثالث، ج:1، ص:132، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں