بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے کہنے پر تعلیم چھوڑ کر روزی کمانے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب دین کے لحاظ سے بہت اچھے ہیں اور پنجگانہ نماز ادا کرتے ہیں،اخلاق میں بہت اچھے ہیں،ہمیں کبھی نہ گالی دی اور نہ مارا،بلکہ اچھی تربیت کی،لیکن وہ کماتے نہیں ہیں،کچھ زمین تھی وہ بیچ کر اب تک گزارا کیا، اب ان کی عمر 49 سال ہو گئی ہےاور میری تین بہنیں ہیں اور میں ایک بھائی ہوں،میری عمر 17 سال ہے اور میں فرسٹ ایئر کا سٹوڈنٹ ہوں،میرے والد صاحب کہتے ہیں کہ تم کماؤ،میں کما نہیں سکتا،ہمیں کیا کرنا چاہیے؟برائے مہربانی ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اولاد کے ذمے لازم ہے کہ والدین کے شریعت کے موافق ہر جائز حکم کو بجالائے،اگر  اولاد کی طرف سے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور حقوق کی ادائیگی کے باوجود والدین اولاد کا خیال نہ رکھیں،تب  بھی اولاد کو والدین سے سختی سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے،البتہ والدین کے ذمے بھی لازم ہےکہ وہ اپنی اولاد میں ہر ممکن حد تک برابری اور انصاف کریں،اپنی اولاد کی خوشیوں کا خیال رکھیں،انہیں ان کی جائز ضروریات  اور معاملات سے محروم نہ رکھیں،قیامت کے دن جیسے دیگر امور کے بارے میں سوال ہوگا،  اسی طرح اولاد کے حقوق کے بارے میں بھی سوال ہوگا،لیکن اولاد خود اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرے،قرآنِ پاک میں ہے کہ والدین اگر اولاد کو شرک پر مجبور کریں تو اولاد ان کی اطاعت نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ پھر بھی اچھا سلوک رکھے،  شرک و کفر سے بڑھ کر کوئی ظلم ہوسکتا ہے؟! اس پر مجبور کرنے کے باوجود والدین کے ساتھ بدسلوکی کی اجازت نہیں ہے،اس حوالے سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم درج ذیل حدیث سے سمجھی جاسکتی ہے:

"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصبح مطيعا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن كان واحدا فواحدا. ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار وإن كان واحدا فواحدا» قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: «وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه»."

(کتاب الآداب،باب البر والصلة،الفصل الثالث:ج:3،ص:1382،ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والا ہے یعنی اس نے ماں باپ کے حقوق ادا کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی ہے تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اگر اس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہو کہ جس کی اس نے اطاعت و فرمانبرداری کی ہے تو ایک دروازہ کھولا جاتاہے اور جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرنے والا ہے ( یعنی اس نے ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی و تقصیر کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی ہے ) تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لیے دوزخ کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں۔اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہو کہ جس کی اس نے نافرمانی کی ہے تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے۔یہ ارشاد سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں ، اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں ، اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں ۔"

(ترجمہ از مظاہر حق،ج:4،ص:486،ط:دارالاشاعت )

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ  معارف القرآن میں لکھتے ہیں :

" والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم کسی زمانے و عمر کے ساتھ مقید نہیں، بہرحال ہر عمر میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا واجب ہے۔"

(ج:5،ص:466،ط:مکتبہ معارف القرآن )

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ اپنے والد کے کہنے کے مطابق روزی کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھے،اسی طرح سائل اور اس کے بہنوں   کو چاہیے کہ وہ   اپنی طرف سے  والدین  کے حقوق کی ادائیگی اور حسنِ سلوک کا پورا خیال رکھیں،  ان کی خدمت، اطاعت اور دیگر شرعی حقوق  میں  بالکل کوتاہی نہ کریں، ان کے سامنے غصے یا بلند آواز سے بھی بات نہ کریں اور ان کے لیے مستقل  یہ دعا کرتے رہیں:

"{رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا}"[بنی اسرائیل:۲۴]

تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا أحدثكم بأكبر الكبائر؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، قال: وجلس وكان متكئا، قال: وشهادة الزور أو قول الزور، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت".

(كتاب البر والصلة،باب ما جاء في عقوق الوالدين:ج:6،ص:23،ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144405101909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں