میرے والد شراب پیتے ہیں، میں انہیں کہتا ہوں کہ شراب نوشی نہ کرو! یہ حرام کام ہے، آپ کی آخرت خراب ہوجائے گی، میرے والد یہ بات سنتے ہیں اور غصّہ کرتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، بددعائیں دیتے ہیں، میں اب پریشان ہوں، مجھے آج یہ بد دعا دی کہ میں اپنی شادی کی رات مرجاؤں، میرا مقصد بس یہ ہے کہ میرے والد کی آخرت خراب نہ ہو، لیکن وہ بدلے میں مجھے بددعا دیتے ہیں، مجھے بددعا سے بہت ڈر لگتا ہے، کیامیرے والد کی بددعا قبو ل ہوجاتی ہے؟
واضح رہے کہ شراب پینا بنصِّ قطعی حرام ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس سے مکمل اجتناب کا حکم دیا ہے، چناں چہ فرمانِ الہی ہے:
"يَٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَاْبُ وَالْأَزْلٰمُ رِجْس مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَٱجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ."(سورة المائدة، الأية:90)
’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ رہو؛ تاکہ تم کو فلاح ہو۔‘‘ (بیان القرآن)
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی شراب پینے والے پر لعنت کا ذکر آیا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد کا شراب پینا حرام اور سخت گناہ ہے، ان پر لازم ہے کہ توبہ کریں اور آئندہ کے لیے اس سے مکمل اجتناب کریں، نیز سائل کو چاہیے کہ اپنے والدکو نرمی سے سمجھائے اور ان کے ساتھ اچھا رویه رکھے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نےوالدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، اور اسے بڑے اہتمام کے ساتھ بیان کیا ہے، چناں چہ قرآنِ کریم میں ہے:
"وَإِذْ قالَ لُقْمَاْنُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ یبُنَيَّ لاتُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْناً عَلى وَهْنٍ وَّفِصالُهُ فِي عامَيْنِ أَنِ اشْكُرْلِي وَ لِوالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ." (سورة: لقمان، الأية:23،24)
ترجمہ:’’اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے کو جب اس کو سمجھانے لگا اے بیٹے شریک نہ ٹھہرائیو اللہ کا بے شک شریک بنانا بھاری بےانصافی ہے، اور ہم نے تاکید کر دی انسان کو اس کے ماں باپ کے واسطے پیٹ میں رکھا اس کو اس کی ماں نے تھک تھک کر اور دودھ چھڑانا ہے اس کا دو برس میں کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھ ہی تک آنا ہے۔‘‘ (بیان القرآن)
خاص کر جب والدین بوڑھے ہوجائیں تو ایسی حالت میں بھی شریعت نے والدین کو غصہ و ناراضی میں زبان سے ’’اف‘‘ تک کا لفظ (کہ جس سے ان کو تکلیف ہو) کہنے سے منع کیا ہے یعنی والدین کو ایذا دینا تو در کنار! انہیں خالی ایسا لفظ جس سے انہیں تکلیف ہو زبان پر لانابھی منع ہے، چناں چہ قرآن کریم میں ہے:
"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلۡوَٰلِدَيۡنِ إِحْسَانًاۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَٱخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّحمَةِ وَقُل رَّبِّ ٱرْحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا."(سورة: الإسراء، الأية: 23،٢٤)
ترجمہ:’’اور حکم کر چکا تیرا رب کہ نہ پوجو اس کے سوائے اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان میں سے یا دونوں تو نہ کہہ ان کو ہوں اور نہ جھڑک ان کو اور کہہ ان سے بات ادب کی، اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کر نیاز مندی سے اور کہہ اے رب ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا۔‘‘(بیان القرآن)
نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں والدین سے اچھے سلوک اوراچھا معاملہ کرنے کاحکم فرمایا ہے، الغرض بہت سی نصوص میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم وارد ہوا ہے، لہذا سائل پر لازم ہے کہ اپنے والد کو حکمت اور بصیرت کے ساتھ سمجھائے، تاہم اس دوران لہجہ سے امتیازی سلوک، یا بدکلامی کا احساس نہ ہو، اور نہ ہی ان کی غلطی ثابت کرنا مقصود ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر اخلاص سے ان کو سمجھاجایا جائے تو کوئی گناہ بھی نہ ہوگا، اور اس کے ساتھ ساتھ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ معاون بھی ہوں گے، اور اگر والد بددعائیں دیتے ہوں، تو پھر ان کے دل کی نرمی اور ہدایت کے لیے دعا کرے ، باقی چونكہ وه ناحق بددعائيں ديتے هيں، لہذا ایسی بددعائیں ان شاء اللہ قبول نہیں ہوں گی۔
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604100103
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن