بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ولی کے امین نہ ہونے کی صورت کا بچے کی رقم کو بطور حفاظت اپنے پاس رکھنا


سوال

میری بہن کے 2 مکان تھے، ایک زمینی گھر اور ایک فلیٹ ذاتی ہے، میری بہن کی ایک بیٹی تھی اس کی شادی ہوئی اور طلاق ہوگئی تھی، دوسری شادی ہوئی، اس سے دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، میرے بہنوئی کا انتقال ہوگیا تھا ، میری بہن کی وصیت یہ تھی کہ زمینی گھر میری نواسی کو دینا اور فلیٹ نواسے کو دینا۔ میری بہن کے ورثاء میں ایک بیٹی اور 2 بھائی ہیں اور یہ سب اس بات پر راضی تھے کہ بہن کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ جائیداد نواسہ، نواسی کو دے دی جائے، اس کے بعد بیٹی کا بھی انتقال ہوگیا ہے، اس کے شوہر حیات ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے انہوں نے صرف بیٹے کو رکھا ہے اپنے پاس اور بیٹی کو بہت مارا اور ہمارے پاس چھوڑ دیا اور تقریباً چار سالوں میں ایک دفعہ بھی بچی کا نہیں پوچھا، اب ایک فلیٹ کی ڈیمانڈ ختم ہورہی ہے، ہم نے سوچا کہ یہ فلیٹ اچھی رقم میں فروخت کرکے بچے کے نام رقم محفوظ رکھ لی جائے، ابھی میں ایسا کیا کروں کہ اس بچے کا جو حق ہے اسے دے دوں یا فلیٹ بیچ کر اس کی رقم اپنے پاس سنبھال کر رکھوں جب بچہ بالغ ہوجائے تب وہ بچہ آکر اپنا حصہ لے سکتا ہے، رقم ہمارے پاس محفوظ رہے گی۔ اگر ہم رقم بچے کے باپ کو دیں توہم اطمینان نہیں ہیں کہ وہ بچے کو اس کا حق دے،میں یہ نہیں چاہتا کہ اس بچے کا حق چھینا جائے۔

جواب

صورت مسئولہ میں نانی کا یہ کہنا کہ  زمینی گھر میری نواسی کو دینا اور فلیٹ نواسے کو دیناشرعاً یہ ان کے حق میں وصیت کرنا ہے، اور وصیت کا حکم یہ ہے کہ وہ ایک تہائی  مال  میں ورثاء کی اجازت کے بغیر نافذ ہوتی ہےباقی دو تہائی میں اگر تمام عاقل بالغ ورثاء اجازت دیں تو اس میں بھی نافذ ہوجائے گی، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب نانی کے تمام ورثاءاس وصیت پر عمل کرنے پر راضی ہیں، اور بیٹی بھی زندگی میں اس وصیت پر راضی تھی تو شرعاً یہ وصیت نافذ العمل ہے، لہذا مذکورہ فلیٹ کا حق دار نواسہ ہی ہے، اگر اور سائل (نانی کا بھائی) کو والد (بچے کے ولی)پر اطمینان نہیں ہے اور بچے کی حق تلفی کا خوف ہو تو عدالت سے منظور کرواکر اس کی رقم کو  اپنے پاس محفوظ رکھ سکتا ہےاور جب بالغ ہوجائے تو اس کی رقم اس کو دے دی جائے۔ نیز بہن کے داماد نے اپنی بیٹی کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا اس پر اسے توبہ استغفار  کر کے اپنی بیٹی کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرنا لازم ہے ورنہ آخرت میں پکڑ کا باعث ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته)

(کتاب الوصایاِ، ص/650، ج/6، ط/سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

العدالة: أي الاستقامة على أمور الدين والأخلاق والمروءات ، فلا ولاية للفاسق؛ لأن فسقه يجعله متهماً في رعاية مصالح غيره.

 القدرة على التصرف مع الأمانة: لأن المقصود من الولاية تحقيق مصلحة المولى عليه، وهي لا تتحقق مع العجز وعدم الأمانة

إذا أخل الولي بأحد هذه الشروط، جاز للقاضي تبديله بسبب نقص الأهلية أو الكفر أو الفسق

(الفصل الرابع:نظریة العقد، القسم الثانی :النظریات الفقیه، ص:2994، ج:4، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں