بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ولی کا فون پر نابالغ بچوں کے نکاح کا حکم


سوال

 زید کا نابالغ بیٹا تھا، عمرو کی جب بیٹی پیدا ہوئی تو زید نے عمرو کو فون کیا اور اس وقت زید کے پاس اس کے گھر کی تین عورتیں اور عمرو کا والد موجود تھا، زید نے عمرو کو فون پر کہا کہ "اپنی بیٹی کا نکاح میرے بیٹے سے کردو" تو عمرو نے فون پر جواب دیا کہ "میں نے کردیا"، دونوں الگ الگ جگہ پر تھے، اب تقریباً چودہ سال بعد عمرو اپنی بات سے منکر ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ کے بیٹے سے فون پر منع کیا تھا، نیز عمرو کا والد جو زید کے پاس تھا اس کا انتقال بھی آج سے تین سال قبل ہوگیا ہے، عمرو نے اپنے والد کو نکاح کا وکیل بھی نہیں بنایا تھا، بس وہاں موجود تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا شرعاً یہ نکاح منعقد ہوگیا تھا یا نہیں؟ فون پر نکاح ہوجاتا ہے؟ اگر نکاح ہوگیا تھا تو عمرو جو انکار کررہا ہے اس کا کیا حکم ہے اور شرعاً اس کو حل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے نکاح کے انعقاد کے لیے ایک ضابطہ رکھا ہے وہ یہ ہے کہ :

  • شرعاً نکاح کے منعقد ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس کا ایک ہونا اور اسی مجلس میں جانبین کا بنفسِ نفیس موجود ہونا یا جانبین میں سے کسی کی عدم موجودگی کی صورت میں ان کے وکیل کا موجود ہونا شرط اورضروری ہے تاکہ وہ وکیل اس فریق کی جانب سے ایجاب و قبول کرے۔
  • نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے۔

اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہیں پائی گئی تو اس صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ تمہید کی رو سے شرعاً یہ نکاح منعقد نہیں ہوا، اس لئے کہ اس معاملہ میں نکاح کی بنیادی شرائط نہیں پائی جارہی ہیں، کیونکہ نہ تو مجلس نکاح ایک ہے اور نہ ہی گواہوں نے ایک مجلس میں ایجاب و قبول کو سنا، بلکہ دونوں کی مجلس الگ الگ  تھی، لہذا فریقین اگر نکاح کرنا چاہتے ہیں تو دوبارہ نکاح کی شرائط کے ساتھ نکاح کریں تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔

فون پر نکاح منعقد نہیں ہوتا البتہ کسی ایک فریق کی جانب سے مجلس نکاح میں وکیل مقرر ہو  اور وہ دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرے تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔

وفی الدر المختار مع الرد المحتار:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین... قال ابن عابدین: (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً".

(کتاب النکاح: 3/ 14، ط: سیعد)

وفی الہندیۃ :

"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد، حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان، وهو غائب فبلغه الخبر، فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة، فبلغها الخبر، فقالت: زوجت نفسي منه، لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى. ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً، فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى، وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما".

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه:1/ 269، ط: ماجدیه)

وفیہ ایضا:

(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع۔

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه: 1/ 267، ط: ماجدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں