بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہیر رانجھا کے مزار پر دعا کرنے کا حکم


سوال

ہمارے شہر میں" ہیر رانجھا "دربار ہے ،اکثر لوگ وہاں جاکر قبرپر کھڑے ہو کر دعا مانگتے ہیں کہ جیسے وہ بہت بڑے ولی تھے،تو کیا ان کے دربار پر جا کر ان کو ولی سمجھ کر دعائیں کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ہیر رانجھاکوئی ولی یا بزرگ نہیں تھے،ان کے بارے میں  عشقیہ داستانیں مشہور ہیں کہ ہیر لڑکے کا نام ہے اور رانجھا لڑکی کا، لیکن اس کی کوئی حقیقت  ہے یا افسانہ ہے، یہ ایک معمی ہے،ان کو ولی سمجھنا اور ولی سمجھ کر ان کے مزار پر دعا کرنا بے بنیاد ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، البتہ عام مسلمان مردوں کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کے لیے ،یا اگر ولی ہو تو ان کے وسیلے سے اپنے لیےدعا کرنا درست ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"قبرستان میں بغرض زیارت قبور جانا  جائز بلکہ سنت ہے اور وہاں جاکر یہ کہنا بھی سنت سے ثابت ہے:  ’’السلام علیكم دار قوم مؤمنین و إنا إن شاء اللّٰه بكم لاحقون أسأل اللّٰه لي ولكم العافیة.‘‘  ( كذا في البرهان)  اموات  کے  لیے دعائے مغفرت کرنا اور کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا بھی جائز ہے  ...    خدا  تعالیٰ سے دعا کرنا اور اس میں کسی بزرگ کو بطور وسیلے کے ذکر کرنا  جائز ہے،  لیکن خود بزرگ کو پکارنا اور ا ن کو حاجت روا سمجھنا درست نہیں ۔"

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100900

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں