بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے ناراض ہونے کے صورت میں عمرے پر جانا


سوال

اگر والدین ناراض ہوں اور منانے کے باوجود بھی راضی نہ ہوں تو عمرہ کےلیے جا سکتے ہیں، اور عمرہ قبول ہو جاتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں عمرے کے لیے والدین سے اجازت لے کر جانا زیادہ بہتر ہے، بل کہ اگر والدین کو خدمت کی ضرورت ہو تو اُن کی اجازت کے بغیر نفلی حج اور عمرہ کے لیے جانا مکروہ ہو گا،اور اگر ان کو خدمت کی ضرورت نہیں ہے،تو پھر والدین کی  اجازت کے بغیر بھی جانا درست ہوگا،اس سے  عمرے کی قبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان."

(کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ج:3، ص:1382، ط: المکتب الاسلامی)

و فیہ ایضاً:

"وعن أبي أمامة أن رجلا قال: يا رسول الله ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: «‌هما ‌جنتك ونارك» . "

(کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ج:3، ص:1382، ط: المکتب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويكره الخروج إلى الحج إذا كره أحد أبويه إن كان الوالد محتاجاً إلى خدمة الولد، وإن كان مستغنياً عن خدمته فلا بأس."

(كتاب المناسك، الباب الثالث في الإحرام، ج:1، ص:220، ط: رشیدیة)

نہر الفائق میں ہے:

"ينبغي لمريد الحج أو الغزو أن يستأذن أبويه لكراهة الخروج مع كراهة أحدهما وهو ‌محتاج ‌إلى ‌خدمته لا أن كان مستغنيا والأجداد والجدات كالأبوين عند فقدهما."

(كتاب الحج، ج:2، ص:52، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507100819

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں