بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کا اپنے بیٹے اوربہوپرناجائزالزامات لگانا


سوال

جب سےمیری  شادی ہوئی ہے میری امی میری بیوی پر شک الزام لگاتی رہتی ہیں، اور ابو کو بھی بھڑکاتی ہے، پھر امی کی باتوں میں آ کر ابو بھی میری بیوی کو بولناشروع کردیتےہیں اور مجھے بھی برا بھلا کہتے ہیں ،ناجائز الزام بھی لگائے ہیں،اور سازشیں بھی کرتے ہیں، لیکن اب ہم دونوں کے رشتے کو خطرہ لگتا ہے،لیکن مجھے پتہ ہے میری بیوی غلط نہیں ہیں،ابو نے مجھےتین بار کہہ دیا کہ یا تو آپ دونوں گھر چھوڑ کر جاؤ یا ہم چلے جاتے ہیں،اب ہمیں اس صورت حال میں کیا کرناچاہئیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کےوالدین کو چاہئیے  کہ اپنی بہوکواپنی بیٹی سمجھ کراورآپ کی اہلیہ کوچاہیےکہ اپنےساس اورسُسرکواپنےوالدین سمجھ کرایک دوسرےکےجائزحقوق اورذمہ داریاں بجالائیں،اورآپ کےوالدین کوچاہیئے کہ آپ دونوں(یعنی بیٹااوربہو) پرناجائز الزامات لگانےسےہرطرح گریزکریں، آپ دونوں کی خوشیوں کا خیال رکھیں،اور برابھلاکہنےسےاجتناب کریں،اورآپ دونوں کےخلاف سازشیں نہ کریں ،یہ سارے امور شرعا نا جائز  و حرام ہیں ایسا کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں آتی ہیں لہذا ان کو چاہیے کہ آپ دونوں کےرشتےکوبرقراررکھنےکےہرممکن کوشش کریں،آپ دونوں بھی اُن دونوں کا ادب و احترام  ہرحال میں ملحوظ رکھیں،اور انہیں شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھائیں،والدین کاایسارویہ اختیارکرنےباجودہرحال میں آپ دونوں اُن کی خدمت کی خاطر ان کےساتھ ایک گھرمیں رہنےکی کوشش کریں،اگرپھربھی والدین اپنےاس رویہ سےبازنہیں آتے،اورآپ لوگوں کواذیت دینےپرمصرہیں،توایسی صورت میں والدین سےعلیحدہ ہوکردوسرے گھرمیں رہائش اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(الأسراء:23)"

ترجمہ:" اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔" ( بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان."

(کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث،ج:3، ص:1382، ط: المکتب الإسلامی)

سنن الترمذی  میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا أحدثكم بأكبر الكبائر؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، قال: وجلس وكان متكئا، قال: وشهادة الزور أو قول الزور، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت."

(باب ما جاء في عقوق الوالدين،ج:3، ص:466، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

احیاء علوم الدین میں ہے:

"اعلم أن سوء الظن حرام مثل سوء القول فكما يحرم عليك أن تحدث غيرك بلسانك بمساويء الغير فليس لك أن تحدث نفسك وتسيء الظن بأخيك ولست أعني به إلا عقد القلب وحكمه على غيره بالسوء ..... والظن عبارة عما تركن إليه النفس ويميل إليه القلب.

فقد قال الله تعالى: "يا أيها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن إن ‌بعض ‌الظن ‌إثم" وسبب تحريمه أن أسرار القلوب لا يعلمها إلا علام الغيوب فليس لك أن تعتقد في غيرك سوءا إلا إذا انكشف لك بعيان لا يقبل التأويل فعند ذلك لا يمكنك إلا أن تعتقد ما علمته وشاهدته."

(کتاب آفات اللسان، ج:3، ص:150، ط: دار المعرفة)

تفسیر القرطبی میں ہے:

"وأكثر العلماء على أن الظن القبيح بمن ظاهره الخير لا يجوز، وأنه لا حرج في الظن القبيح بمن ظاهره القبح، قاله المهدوي."

(سورۃ الحجرات، ج:16، ص:332، ط: دار الکتب المصریة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں