بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا والدین کے گناہوں کی سزا بچوں کو ملتی ہے؟


سوال

ماں  باپ کے گناہوں کی سزا بچوں کو ملتی ہے؟ میرے بچے بیمار رہتے ہے اور میرے شوہر نماز نہیں پڑھتے۔

جواب

واضح رہےکہ کسی بھی شخص کےگناہ کی سزا دوسرے شخص کو نہیں ملتی ،  قرآن پاک میں  ہے کہ کوئی شخص دوسرے کا کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

"وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى"   (سورة فاطر، رقم الآیة:۱۸)

ترجمہ: اورکوئی دوسرے کا بوجھ (گناہ کا)  نہ اٹھائے گا۔(بيان القرآن)

صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی کے سمجھانے کے باوجود شوہر نماز نہیں پڑھتا، توایسی صورت میں وہ خود ہی اپنے گناہوں کا  ذمہ دار ہے، اُس سے ہی اُ س کے گناہوں کی پوچھ ہوگی، اُس کی بیوی یا اولاد سے اُس کے گناہوں کامؤاخذہ نہیں ہوگا، البتہ بیوی پر لازم ہےکہ وہ اپنی کوشش جاری رکھے ، جیسے دنیوی نقصان سے بچانے کی  پوری کوشش کی جاتی ہے  اسی طرح آخرت کے نقصان سے بچانے کی بھی  پوری کوشش کرے۔

تفسير  مظہری میں ہے:

"وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى" أي لا تحمل حاملة حمل نفس أخرى أي ثقلها من الآثام بل إنما تحمل وزر نفسها."

(سورة الإسراء، رقم الآیة: 15 ،421/5، ط: مكتبة الرشدية - الباكستان)

تفسير ابن كثير ميں ہے:

"قال سعيد بن المسيب تحت قوله تعالى:(يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ): إذا أمرت بالمعروف ونهيت عن المنكر، فلايضرك من ضل إذا اهتديت."

(سورة المائدة، آيت:105 ، 193/3، ط: دارالكتب العلميۃ)

صحيح مسلم ميں ہے:

"فقال أبو سعيد: أما هذا فقد قضى ما عليه سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ‌من ‌رأى ‌منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان."

(کتاب الإیمان، 69/1: ط،دار إحياء التراث العربي بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں