بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ سے بدکلامی


سوال

میرا والد فوت ہوا ہے، میری اماں زندہ ہے ،میرا بھائیوں سے زیادہ تر جھگڑاہو تا ہے،مختلف بنیادوں پر کبھی معاشی مسائل پر کبھی جب بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے بےانصافی کرتا ہے تو مجھے لگتا ہے جو کہ ہوتا بھی صحیح ہےکہ میں انصاف پر ہوں ،لیکن ہر وقت ماں مجھے الزام دیتی ہے کہ آپ ghlat(غلط)ہو،اس لئے  کہ آپ سب سے چھوٹے ہیں  ،اس حالت میں میں اماں سے جھگڑ لیتا ہو ں اور الفاظ بھی غلط استعمال کر دیتا ہوں، جس سے اماں کی دل آزاری ہو جاتی ہے ،یہ سب ہونے کے بعد مجھے یہ لگتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں،اس بارے میں آپ مجھے شرعی حکم بتائیے ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے  بندوں کے حقوق متعین کئے ہیں اور  ہر ایک  کا رتبہ ومقام بھی واضح طورپر بتایاہے،  اولاد پر والدین کے کیا کیا حقوق ہیں؟ اورچھوٹے بھائی پر بڑے بھائی کا کیا حق ہے؟وغیرہ تو شریعت کا منشا یہ ہے کہ ہرایک بندہ اپنے مرتبے میں رہ کر دوسرے بندہ کا حق ادا کرے، خاص طورپر والدین کے حقوق پر تو شریعت نے بڑا زور دیا ہے۔کئی قرآنی آیات میں اور احادیث مبارکہ میں ان کی بار بارتاکید کی گئی ہے۔

جیسے قرآن مجید میں ہے:

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا 

ترجمۃ:  اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے".

(سورۃ الاسراء، رقم الآیۃ:23،24، ترجمہ:بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے :

"وعن أبي أمامة أن رجلا قال: يا رسول الله ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: «‌هما ‌جنتك ونارك. "

(مشکوٰۃ المصابيح، باب البر والصلة، رقم الحديث:4941، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ: " حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں "۔ (یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاؤگے)        

ايك اورحديث شريف ميں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أصبح مطيعا في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن كان واحدا فواحدا ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار وإن كان واحدا فواحدا قال الرجل:‌وإن ‌ظلماه؟، قال: ‌وإن ‌ظلماه ‌وإن ‌ظلماه ‌وإن ‌ظلماه"۔

(شعب الايمان للبيهقيؒ۔ج۔6ص۔206مكتبة:دارالكتب العلمية بيروت)

ترجمة:حضرت ابن عباس رضي الله تعالي عنه سے مروي هے كه آپ صلي الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا كه جو شخص اپنےوالدين كا فرمان بردار هوا توجنت كے دو دروازے اس كے لئے كھول دیئے جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک  ہو تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہےاورجوشخص والدين كے متعلق الله تعالي كانافرمان هوا تو اس كے لئے جهنم كے دو دروازے كھول دیئے جاتے ہیں اور اگر ایک ہو(والدین میں سے)تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے (حاضرین مجلس میں سے )ایک آدمی نے پوچھا اگرچے والدین اس پر ظلم کرے ؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگرچے وہ اس پر ظلم کرے ۔

تو ان  قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہی  معلوم ہوتا ہے کہ والدین سے اگربالفرض اولاد کے حق میں کوئی ایسی کاروائی سرزدبھی ہوجائے جو انصاف پر مبنی نہ ہو تب بھی ان کی اطاعت سے سرتابی نہ ہونی چاہیے۔حدیث کے الفاظ (وان ظلماه! قال:وان ظلماه)اس پر دلالت كرتے هيں ۔اسي طرح بڑے بھائی کا درجہ شریعت میں باپ کے درجے کے برابرہے(جب والد فوت ہوجائے)اس کے برعکس والدین پربھی اولاد کے کچھ حقوق ہیں ،اسی طرح بڑے بھائی پر چھوٹے بھائیوں کے  حقوق ہیں تونتیجہ  یہی نکلتاہے کہ اگرہرایک دوسرے  کے حقوق کاخیال رکھے تو جھگڑے خود بخود ختم ہوجائیں گے،باقی معاشی مسائل  کامسئلہ تو ا س بارے میں شریعت کامزاج یہ ہے کہ  جو آدمی بالغ ہوجائے تو وہ اپنی مددآپ کے تحت اپنے آپ کو خود سنبھال لے کسی اور پر بوجھ نہ بنے، الا یہ کہ کوئی شخص  دینی طالب علم ہو یاکسی اوروجہ سے معذور ہوتو اس کا خرچہ گھر والوں کو برداشت کرناچاہیے ۔

الغرض سائل کے لئے جائز نہیں کہ اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ تلخ لہجہ ،بدکلامی ،نازیبا کلمات کااستعمال ، لڑائی جھگڑا اختیار کرےبلکہ اگر ان کی طرف سے کوئی ناانصافی بھی معلوم ہو تو بھی خاموشی اختیار کرے اوربرداشت سے کام لےتو ان شاءاللہ تعالی ٰاللہ تعالی اس پر زیادہ ثواب دیں گے، ورنہ بدزبانی سے دل آزاری ہوگی اور دل آزاری  بہت بڑی نافرمانی ہے جس کا وبال دنیااور آخرت میں انسان کو بھگتنا پڑے گا  اوربڑے بھائی کابھی  احترام کرے اگرواقعی وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے حقوق میں ناانصافی کرہاہے تو پہلی بات تویہ ہے کہ اللہ تعالی اس سے خود بازپرس کریں گے اور حدیث شریف میں آتاہے کہ روز قیامت جس بندے سے بازپرس شروع  هوئي تو وه هلاك هوا۔دوسری بات یہ ہے کہ معاشی مسائل کا حل لڑائی جھگڑے سے نہیں بلکہ باہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کرتعاون  سےکرنا چاہیے یا علاقے کے بااثر اورباشعور وہمدرد لوگوں سے مسئلہ حل کراناچاہیے۔

زادالمسیر میں ہے:

لا تقل لهما كلاما تتبرم فيه بهما إذا كبرا وأسنا، فينبغي أن تتولى من خدمتهما مثل الذي توليا من القيام بشأنك وخدمتك، ولا تنهرهما أي: لا تكلمهما ضجرا صائحا في وجوههما۔۔۔۔۔۔۔۔قال المفسرون: وإنما نهى عن أذاهما في الكبر، وإن كان منهيا عنه على كل حال، لأن حالة الكبر يظهر فيها منهما ما يضجر ويؤذي، وتكثر خدمتهما۔۔۔۔۔۔۔۔۔قوله تعالى: وقل لهما قولا كريما أي: لينا لطيفا أحسن ما تجد"۔

(زاد المسيرفي علم التفسيرج۔3ص۔16مكتبة:دارالكتاب العربي بيروت)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں