بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا صرف ایک بیٹے کو کچھ رقم گفٹ کرکے اس میں رجوع کا حکم


سوال

آج سے تقریباً چار سال قبل ہمارے والد مرحوم کا مکان فروخت ہوا اور والدہ سمیت تمام بہن بھائیوں میں شریعت کے مطابق ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگیا، والد مرحوم کے وصال کے بعد سے والدہ میرے ساتھ ہی رہ رہی تھیں،  جب  مکان فروخت ہوگیا تو والدہ نے کہا کہ میں نئے گھر(جو خریدیں گے) میں بھی  تمہارے ساتھ رہوں گی، اس سلسلے میں میں نے ہمارے محلہ کے امام صاحب سے رجوع کیا اور ان کو یہ بات بتائی کہ والدہ اور میں اپنی دونوں  رقم ملاکر رہائش کےلیے  ایک  مکان خرید نا  چاہتے ہیں، جس پر مولانا صاحب نے کہا کہ آپ اپنی امی کو بولیں کہ وہ اپنی رقم آپ کو بطورِ ہدیہ دے دیں، میں نے یہ بات واپس گھر آکر امی کو  بتادی،  جس پر امی نے ٹھیک ہے کہااور یہ ہدیہ والی بات امی نے سب بہن بھائیوں کو بھی بتادی تھی، اس کے بعد میں نے امی کی رقم جو کہ بطورِ ہدیہ مجھے دی گئی تھی، اپنی رقم میں  ملاکر ایک فلیٹ خرید لیا، اب کچھ دنوں سے امی یہ تقاضہ کررہی ہے کہ ہمارا فلیٹ فروخت کر کے اس میں میری  جتنی رقم شامل ہے وہ مجھے واپس کردی جائے، تاکہ میں یہ رقم اپنی دیگر اولاد میں تقسیم کرسکوں، اور وہ اس رقم کا مطالبہ اس وجہ سے کررہی ہے کہ امی کو میرے بھائی بہنوں نے یہ کہا ہے کہ آپ کے حصہ کی رقم اپ نے ایک بیٹے کو دے دی اور آپ نے ہم بچوں کا حق مارا ہے۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ:

1: والدہ نے ایک بار جو رقم بطورِ ہدیہ دی تھی اس کی واپسی کا تقاضہ کرنا شرعاً جائز ہے یانہیں؟

2: کیا اولاد کا اپنی والدہ کے حصہ ( جو ان کو شوہر کی میراث میں سے ملا ہو) میں سے ان کی زندگی میں اپنے حصے کا تقاضہ کرناشرعاً جائز ہے؟

جواب

1: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی اولاد کو ہبہ (گفٹ) کرنا چاہتا ہے، تو اس پر لازم ہے کہ تمام اولاد (بیٹے بیٹیوں) کو برابر ہبہ کرے، بلاوجہ کمی بیشی یا کسی کو محروم کرنا جائز نہیں، تاہم  اس کے باوجود اگر کوئی شخص  اپنی اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز ہبہ کرکےمکمل  قبضہ اور مالکانہ اختیارات کے ساتھ حوالہ کردے، تو اس بیٹے یا بیٹی کے حق میں ہبہ مکمل ہوجائے گا اور موہوبہ چیز اس شخص کی ملکیت سے نکل کر  بیٹے یا بیٹی کی ملکیت  داخل ہوجائے گی، اس کے بعد وہ شخص  اس ہبہ میں سے رجوع  نہیں کرسکتا، کیونکہ  اپنے ذی رحم محرم کو  کوئی چیز ہبہ کرنے کے بعد اس میں رجوع کرناشرعاً جائز نہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  نیا گھر لینے کےلیے یہ ضروری نہیں تھا کہ والدہ کو کہا جائے کہ آپ اپنے حصے کی رقم مجھے ہبہ  کریں، پھر میں گھر خرید کر اس میں آپ کو ٹہراوں، بلکہ سرمایہ کے تناسب سے بھی گھر میں دونوں حصہ دار بن سکتے تھے، جس صورت میں والدہ کی طرف سے دیگر اولاد کی حق تلفی کا معاملہ سامنے نہ آتا اور والدہ کو بھی اپنے ہبہ سے رجوع کرتے ہوئے مذکورہ رقم کے تقاضے کی نوبت نہ آتی۔

بہر حال اگر والدہ نے واقعۃً مذکورہ رقم سائل کو ہبہ کردی تھی، تو اب ان کو واپس لینے کا حق حاصل نہیں، تاہم چوں کہ دیگر اولاد کو محروم کرکے ایک بیٹے کو اپنے حصے کی پوری رقم ہبہ کرنا غیر منصفانہ اقدام تھا، جس پر عنداللہ والدہ کو جوابدہی کرنی پڑسکتی ہے، اس لیے سائل کےلیے اپنی والدہ کے ساتھ خیر خواہی کا تقاضہ یہی ہے کہ والدہ کی رقم کا انتظام کرکے والدہ کو واپس کردے، تاکہ والدہ کی دل جوئی ہو اور دیگر اولاد کی دل شکنی کا ازالہ ہو۔ 

2: سائل کی والدہ جب تک زندہ ہے وہ اپنی کل جائیداد کی تنِ تنہا مالک ہے، کوئی بیٹا یا بیٹی نہ اس سےجائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرسکتا ہے اور نہ والدہ کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف  کرنے کا کوئی حق  رکھتا ہے۔

شرح معانی الآثار میں ہے :

"عن الشعبي قال: سمعت النعمان على منبرنا هذا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سووا بين أولادكم في العطية كما تحبون أن يسووا بينكم في البر قال أبو جعفر: كأن المقصود إليه في هذا الحديث الأمر بالتسوية بينهم في العطية ليستووا جميعا في البر."

(کتاب الھبة، ج:4، ص:86، رقم:5836، ط:عالم الکتب)

ترجمہ:حضرت شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو ہمارے اس منبر پرفرماتے ہوئےسناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصاف کرو تم اپنے اولاد کے درمیان عطیہ میں جیساکہ تم پسند کرتے ہو کہ وہ برابری کرے تمہارے درمیان نیکی میں  ۔

البحرالرائق ميں ہے:

"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين و إن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء و هو آثم كذا في المحيط ... و في الخلاصة ‌المختار ‌التسوية بين الذكر و الأنثى في الهبة".

(کتاب الھبة، ج:7، ص:288، ط:دارالکتاب)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم .... (ومنها القرابة المحرمية)، سواء كان القريب مسلما أو كافرا، كذا في الشمني ولا يرجع في الهبة من المحارم بالقرابة كالآباء والأمهات، وإن علوا والأولاد، وإن سفلوا وأولاد البنين والبنات في ذلك سواء".

(كتاب الهبة، الباب الخامس في الرجوع في الهبة، ج:4، ص:385، ط:رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق، وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة وكذلك حكم الحق الثابت في المحل عرف هذا فنقول للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء".

(كتاب الدعوى، فصل فی بیان حکم الملک، ج:6، ص:264، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100840

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں