میرے بیٹی تین سال پہلے بیوہ ہوگئی تھی ،اور اس کے دو بچے ہیں ،ایک بیٹا جو 5 سال کا ہے ،اورایک بیٹی جو 2سال کی ہے ،اب میری بیٹی کی ساس کا بھی انتقال ہوگیاہے ،سسر اکیلاہے،میری بیٹی دوسری شادی کرنا چاہتی ہے،اور یہ برادری سےباہر دوسری برادری میں ہورہی ہے،اب وہ میرے پاس ہے،یہ بتایا جائے کہ بچے ماں کےساتھ جائیں گےیا دادا کے پاس رہیں گے،یا نانا نانی کے پاس رہیں گے،دادا بچوں کا مطالبہ کررہا ہے،کیا والدہ کے حقِ پرورش مکمل ہونے کے بعد دادا بچوں کو لے سکتاہے؟
واضح رہے کہ اولاد کی پرورش کرنے کا حق سب سے پہلے والدہ کو ہے ،بچے کی پرورش کا حق سات سال کی عمرتک اور بچی کی پرورش کا حق نوسال تک والدہ کو حاصل ہے ،بشر ط یہ کہ بچوں کی ماں کسی ایسے اجنبی آدمی سے نکاح نہ کرے جو بچوں کے حق میں نامحرم ہو ، وگرنہ ماں کا حق ساقط ہوجائے گا، پھر اس کے بعد بچوں کی پرورش کا حق نانی کو،اس کے بعد دادی کو،اس کے بعد خالہ کو ،اس کے بعد پھوپھی کو (بالترتیب) حاصل ہوگا،پرورش کی عمر مکمل ہونے کے بعد والد/دادا بچوں کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں ان دونوں بچوں کی پرورش کرنے کا حق سب سے پہلے ان کی والدہ کو حاصل ہےاور یہ حق ان کو اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ بچوں کے کسی غیر محرم سے شادی نہ کرے ،جب وہ شادی کرے گی،تو والدہ کا حق ساقط ہوجائے گا، پھر اس کے بعد بچوں کی پرورش کا حق مقررہ مدت تک نانی کوحاصل ہوجائے گا،مقررہ مدت کے گزر جانے کے بعد بچوں کی تربیت کرنے کی ذمہ داری چوں کہ دادا کی ہے ،ا س لیے اس مدت کے بعد دادا بچوں کو تربیت کی خاطر اپنے تحویل میں لینا چاہے تولے سکتا ہے اور ان کی تربیت کرے، مقررہ مدت سے قبل اگر نانی یا خالہ بچوں کی تربیت کےلیے تیار ہے تو پھر دادا کا لینا درست نہیں ہے ۔
در مختار میں ہے :
"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقهاأو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق، ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه. وإذا اجتمعوا فالأورع ثم الأسن، اختيار."
(باب الحضانة ، ج : 3 ، ص : 562،563 ، ط : دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے :
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى...الدر.
وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه. وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية."
(باب الحضانة ، ج :3 ، ص : 566 ، ط : دارالفکر)
تبیین الحقائق میں ہے:
"وفي نوادر هشام عن محمد إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق بها، وهذاصحيح لما ذكرنا من الحاجة إلى الصيانة، وبه يفتى في زماننا لكثرة الفساق، وإذا بلغت إحدى عشرة سنة فقد بلغت حد الشهوة في قولهم وقدره أبو الليث بتسع سنين، وعليه الفتوى."
(باب الحضانة ، ج : 3 ، ص : 49،50 ، ط : دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101129
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن