میں نے والد صاحب کی حیات ہی میں اپنے گھر سے علیحدگی اختیار کی تھی، تو میرے والد ، بھائی بہنوں نے مل کر آپس کی مشاورت سے جائیداد کی قیمت لگا کر مجھے 13 لاکھ 50 ہزار روپے دے کرمجھے حصہ دے دیا تھا ،اس شرط پر کہ آئندہ آپ کو والد کی میراث میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا اور میں نے قبول بھی کر لیا تھا اور میں اس پر راضی بھی ہو گیا تھا اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں نہیں لوں گا، لیکن اب میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور وراثت کی تقسیم ہو رہی ہے تو کیا اس میں سے میرا بھی حصہ ہوگا یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں جب والد صاحب نے سائل کوزندگی میں حصہ دے کر فارغ کردیاتھا، اس شرط کے ساتھ کہ والد کے انتقال کے بعد اس کا والد کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہوگا،اور بیٹا (سائل)اس پر راضی بھی ہوکر وہ حصہ قبول کیا، تو ایسا معاہدہ کرنا درست تھا،سائل کو اب والد کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا، لہذا اسےاپنےکیےہوئے معاہدہ کی پاسداری کرنالازم ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
"وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا (الإسراء34)"
"ترجمہ: اور عہد (مشروع) کو پورا کرو ، بیشک (ایسے) عہد کی باز پرس ہونے والی ہے۔(بیان القرآن)"
لسان الحكام میں ہے:
"وفي خزانة الأكمل قال أبو العباس الناطفي رأيت بخط بعض مشايخنا رحمهم الله تعالى رجل جعل لأحد بنيه دارا بنصيبه على أن لا يكون له بعد موت الأب ميراث جاز وأفتى به الفقيه أبو جعفر محمد ابن اليماني أحد أصحاب محمد بن شجاع البلخي وحكى ذلك عن أصحاب احمد بن أبي الحارث وأبي عمر والطبري انتهى."
(الفصل التاسع عشر في الهبة، ص:373، ط:البابي الحلبي)
فتاوی شامی میں ہے:
"واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل جاز وبه أفتى بعضهم وقيل لا."
(كتاب الوصايا، ج: 6، ص: 655، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101615
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن