بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

والدصاحب مرحوم کی قضا نمازیں اور روزے کی فدیہ کا حکم


سوال

1۔ میرے والد صاحب کا  28/6/2024کا  انتقال  ہوا ہے،  ہمارے  اندازے   کے مطابق  ان  کی 25   سال کی نمازیں قضا ہوئی ہیں،  وہ اکثر قضاءِ عمر ی بھی پڑھا کرتے تھے، وہ کتنی پڑھیں اس کا اندازہ  نہیں ہے، اس کےعلاوہ ان کے روزے بھی 2 سال کے   قضا  ہوئے ہیں  ،والد صاحب نے فدیہ کی کوئی وصیت نہیں کی تھی، ان کے فدیہ کے بارے میں بتائیں، ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

2۔ والد صاحب کا ایک مکان ہے، جس کا کرایہ آتا ہے، میرے والد صاحب  نے  اس کرایہ کے بارے  وصیت کی تھی کہ وہ فلاحی ضرورت مندوں کو دیا جائے ۔

3۔میرے ماموں کا انتقال ہوگیا ہے، وہ سید تھے، کیا ہم یہ فدیہ کی  رقم ان کے بچوں کو  دے  سکتے ہیں ؟

4۔کیا فدیہ کی رقم ہم مدرسہ کے استاد کو  یاکسی مدرسہ کو دے سکتے ہیں؟

جواب

1۔ صورتِ   مسئولہ میں اگر واقعتاًمرحوم والد صاحب نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تھی، تو شرعاً ورثاء پر ان کی نمازوں اور روزوں  کا  فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء  از خود باہمی رضامندی سے یامرحوم کے ترکہ سے یا کوئی ایک وارث اپنی جانب سے ان کی نمازوں،روزوں کا فدیہ  ادا کردے، تویہ والدکے ساتھ حسنِ  سلوک ہوگا ،جس پر اجر وثواب کے مستحق ہوں گے ۔

2۔مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنے گھر کے کرایہ کی رقم کو فلاحی کاموں میں خرچ کرنےکی وصیت کی ہے ،تو اگر یہ مکان مرحوم کے ترکہ کے ایک تہائی کے برابر یااس سے کم ہے تومرحوم کی وصیت کے مطابق اس مکان کا کرایہ فلاحی ادارے کو دیا جائے گا  اور اگر یہ مکان مرحوم کےترکہ کے ایک تہائی سے زائد ہو تو ایک ترکہ کے ایک تہائی میں مکان کا جتنا حصہ آتا ہے، اتنے مکان کا کرایہ فلاحی ادارے کو دیا جائے گا اور زائد حصے کا کرایہ ورثاء کی صواب دید  پر موقوف ہوگا ،چاہیں تو آپس میں تقسیم کریں اور چاہیں  تو  والد کی وصیت پر عمل کرلیں ۔

3۔روزے کے فدیے اور کفارے کے مستحق وہی  افراد ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں، جس طرح زکوۃ  سادات کو نہیں دی جاسکتی اسی طرح فدیہ اور کفارہ کی رقم بھی انہیں دینا جائز نہیں،لہذا صورتِ  مسئولہ میں آپ کے لیے اپنے ماموں کے بچوں کو  (بوجہ سید ہونے کے)  فدیہ  کی رقم دینا درست نہیں ہے،اگر وہ ضرورت مند ہیں تو  صاف رقم سے ان کے ساتھ تعاون کریں ،اس میں صدقہ اور صلہ رحمی دونوں کا ثواب ملے گا۔

4۔اگر مدرسہ کے استاد زکوۃ کے مستحق ہیں، تو ان کو تنخواہ کے علاوہ  فدیہ کی رقم دینا جائز ہے اور جس مدرسے میں مستحقِ زکات طلبہ پڑھتے ہوں اور وہاں مستحق طلبہ پر واجب صدقات خرچ کرنے کا اہتمام ہوتاہو، وہاں نماز/روزے کے فدیے کی رقم دی جاسکتی ہے، بلکہ صدقات و خیرات کے ذریعے دینی مدارس کی معاونت کرنادوہرے ثواب کا باعث ہوگا، ایک صدقے کا ثواب دوسرا دین کی اشاعت کا ثواب ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."

(کتاب الصلوٰۃ، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:72، ط:سعید)

 فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته و هم كبار و لا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية."

(كتاب الوصايا ،ج:6، ص:90، ط:رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"و مصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزکاۃ."

(الباب الثامن في صدقة الفطر، ج:1، ص:194، ط،مکتبة الرشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے :

"جازت الوصية في المنافع في قدر ما تخرج العين من ثلث ماله بأن لم يكن له مال آخر سوى العين من العبد، والدار، تقسم المنفعة بين الموصى له، وبين الورثة أثلاثا ثلثها للموصى له، و ثلثاها للورثة."

(كتاب الوصايا،‌‌ الشرط الذي يرجع إلى الموصى به، ج:7، ص:353، ط،دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں