بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد نے بیٹی کو اپنے مکان کے اوپر تعمیر کی اجازت دی اور بعد میں ہبہ بھی کیا تو وہ کس کی مکیت ہوگا؟


سوال

میرے والد کی دو منزلہ عمارت تھی، جس میں وہ میرے دو بھائیوں اور ان کی بیوی بچوں کےساتھ رہتے تھے، 1986ء میں میرے والد نے مجھے اوپر منزل پر اپنے لیے فلیٹ بنانے کی اجازت دی، جس پر میں نے فلیٹ تعمیر کروایا، 1987ء میں جب تعمیر مکمل ہوا، اس وقت میرے والد نے ایک  اسٹامپ پیپر پر اس فلیٹ کی ملکیت مجھے سونپی، اور مکمل قبضہ و تصرف کےساتھ میرے حوالے کردیا، اور اس اندیشے سے کہ کہیں کوئی تنازعہ نہ ہو، انہوں نے میرے بھائیوں سے بھی اس  اسٹامپ پیپر پر دستخط کروائے، اس وقت سے لے آج تک ، والد کی زندگی میں اور ان کے وفات (جو1997ء ہوئی)  کے بعد بھی وہ فلیٹ میری ملکیت میں ہے، جس میں اب تک میں رہائش پذیر ہوں، میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے، میرا کوئی بیٹا نہیں ہے، صرف دو بیٹیاں ہیں۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ :

1: کیا مذکورہ فلیٹ میری ملکیت ہے یا میرے والد صاحب کے وراثت کا حصہ ہے؟

2: مذکورہ فلیٹ میری وفات کے بعد میری دو بیٹیوں کی ملکیت میں رہےگا؟

3: اس فلیٹ کے علاوہ جو دو فلیٹ ہے جو کہ میرے والد کی وراثت کا حصہ ہے ، اس میں میرا حصہ ہوگا؟

جواب

1۔2: صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان حقیقت پر مبنی ہےکہ سائلہ کے والد نے اپنے دو منزلہ مکان کے اوپر اپنے لیے فلیٹ بنانے کی اجازت دی جس کے بعد سائلہ نے اس پر اپنے لیے فلیٹ بنایا، اس کے بعد والد نے سائلہ کو مذکورہ مکان ہبہ کرکے مالکانہ اختیارات کے ساتھ حوالہ کیا اورتنازعہ سے بچنے کےلیے اسٹامپ پیپر بنواکر سائلہ کے تمام بھائیوں سے دستخط بھی کروائے، تو ایسی صورت میں مذکورہ فلیٹ سائلہ کی ملکیت ہے اس میں کسی اور کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے، اور سائلہ کے انتقال کے بعد اس  وقت سائلہ کے جو ورثا ء موجود ہوں گے ان میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

3:مذکورہ فلیٹ کے علاوہ جو دو فلیٹ ہے جو والد کی ملکیت میں تھے اور اب چوں کہ سائلہ کے والد کا انتقال ہوگیا ہے، اس لیے اس میں بھی سائلہ کا شرعی حصہ ہے، اور سائلہ اپنے شرعی حصہ کے بقدر کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به)".

(کتاب الھبة:ج،5، ص،690:ط ،سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة ٩٦) : لايجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه. (المادة ٩٧) : لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي".

(المقالة الثانية فی بیان القواعد الکلیة الفقهية، ص:27، ط:نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب)

بدائع الصنائع میں ہے:

"للمالك أن ‌يتصرف ‌في ‌ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره أو لا يتعدى، فله أن يبني في ملكه مرحاضا أو حماما أو رحى أو تنورا، وله أن يقعد في بنائه حدادا أو قصارا، وله أن يحفر في ملكه بئرا أو بالوعة أو ديماسا، وإن كان يهن من ذلك البناء ويتأذى به جاره".

(كتاب الدعوى، فصل في بيان حكم الملك، ج:6، ص:264، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں