بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد كے ساتھ رہتے ہوئے اپنی کمائی سے بنائی گئی جائیداد کا حکم


سوال

ہم چار بھائی اپنے والد صاحب کے ساتھ اکٹھے ایک  گھر میں رہائش پذیر تھے، گھر کے سربراہ والد صاحب تھے، والد صاحب جب تک حیات تھے گھر کا خرچہ، بیٹوں کی تعلیم کا خرچہ سب کچھ  وہی برداشت کرتے تھے،والد صاحب خود" برونائی" میں تھے، تقریباً پچاس سال وہاں گزارے تھے، بیٹوں میں سے  ایک  کو ڈاکٹر بنایا، ایک  کوعالم ، ایک  کوحافظ قرآن ،اورایک نے عصری تعلیم کی مگراب دماغی طورپر معذور ہے،والد کی زندگی میں بیٹوں میں سے کسی کا  کوئی مستقل کاروبار نہیں تھا،البتہ ڈاکٹر بھائی والد صاحب کی زندگی میں بھی کماتے تھے، اور اس نے اپنی کمائی سے ہسپتال بنایا جس کا تذکرہ آگے آرہاہے، علاقہ کا عرف اور رواج یہ ہے کہ اسی طرح مشترک بھائیوں میں جو بھی کماتاہے وہ والد کو دیتا ہے اور خرچہ کرتاہے،اسی دوران ڈاکٹر بھائی نے  والد صاحب سے کہا کہ میں ایک ہسپتال تعمیر کرنا چاہتاہوں، جس کے لئے طریقہ کا ر یہ اختیار کیاگیا،  کہ ایک دوسرے فریق کی زمین تھی ان کے ساتھ معاہدہ ہوا، معاہدہ نامہ میں یہ لکھا گیا کہ زمین آپ کی ہوگی اور اس پر ہم ہسپتال تعمیر کریں گے، ہسپتال کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد جو نفع ہوگا تووہ فریقین یعنی ڈاکٹر صاحب کے والد اور ڈاکٹر کے بھائیوں اور زمین والےفریق  کے درمیان مشترک ہوگا، اور ہسپتال بھی آدھا آدھا ہوگا، تعمیر مکمل ہونے کے بعد ہسپتال  فریقین کے درمیان زمین سمیت نصف نصف ہوگا،اور فریقین میں سے جو اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے، تو وہ مختار ہوگا، البتہ یہ ضروری ہوگا کہ دوسرے فریق کو مطلع کردے، اگر دوسرا فریق لینے کےلیے تیار ہوگا تو خرید لے گا ورنہ دوسرے فریق کی مرضی کے گاہگ کو دیاجائےگا،ہسپتال جب مکمل ہوا  تو والد صاحب کا انتقال ہوگیا،اس کے بعد جب ہسپتال سٹارٹ ہوا اور قابل آمدنی ہوا تو اس کی آمدنی گھر کے سربراہ ہونےکی حیثیت سے اور علاقہ کے عرف  کی وجہ سےبڑا بھائی (ڈاکٹر) سب کچھ سنبھالتاہے اور گھر کا خرچہ چلاتاہے،  ہسپتال کی تعمیر پر جو خرچہ ہوتا رہا  وہ ڈاکٹر بھائی نے اکیلےاپنی کمائی سے  کیا ،اس میں کسی اور بھائی کا یا والد  کی رقم نہیں لگی، البتہ  حافظ بھائی  ہسپتال  کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتاتھا،نیز دوسرے فریق(جس سے زمین لی گئ تھی)کے ساتھ  معاہدہ لکھتے وقت ڈاکٹر بھائی نے اپنے والد صاحب اور اپنے بھائیوں کو اپنے ساتھ فریق دوئم(یعنی ہسپتال کی تعمیر والے فریق) میں شامل کرلیا تھا، اور جو اسٹام لکھا گیا اس میں فریق دوئم  میں ان سب بھائیوں او ر والد کے دستخط موجود ہیں، یعنی ہسپتال بنانے کی ذمہ داری فریق دوئم نے قبول کی تھی اور فریق اول نے زمین دی تھی  اور فریق دوئم  میں  ہمارے والد اور ہم چاروں بھائی  تھے، البتہ  ہسپتال ڈاکٹر بھائی نے  اپنی کمائی سےتعمیر کیا اور حافظ بھائی  ہسپتال کی نگرانی کرتا تھا، اب ڈاکٹر بھائی نے اس ہسپتال میں سے آدھا حصہ تقریباً چھ کروڑ روپے میں  فریق اول (زمین والے) کے ہاتھ فروخت کیا ،اس کے بعد سب بھائیوں کو بٹھایا، کہ یہ ہسپتال کے پیسے ہیں، اس سے اپنے لئے گھر بناتے ہیں، لیکن بھائیوں نے اپنے لیے کاروبار شروع کرنے کا کہا، جس میں گرماگرمی ہوئی توڈاکٹر بھائی  کی زبان سے اچانک نکلا کہ یہ تو میرا ذاتی ہے، میں آپ لوگوں پر احسان کرنا چاہتاتھا۔ 

باقی علاقہ کے عرف میں بھی   اس کو مشترکہ سمجھاجاتا ہے اور ڈاکٹر بھائی بھی اس کو مشترک سمجھتے تھے، ہم بھی اس کو مشترک سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہےکہ آخری جرگے میں ڈاکٹر بھائی نےخود  اقرار بھی کیا کہ دوسرے بھائی میرے ساتھ شریک ہیں، ان کابھی  میرے ساتھ  حق ہے۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ ہسپتال سے حاصل شدہ  چھ کروڑ روپےوالداور  تمام بھائیوں میں مشترک ہوں گے یا صرف اکیلے ڈاکٹر بھائی کے ہوں گے؟

جواب

واضح رہےکہ اگر والد اور بیٹے یا سب بھائی ایک گھر میں رہائش پذیر ہوں ان کا کھانا پینا بھی ایک ہو،اور خرچہ بھی ایک ہو، اور کمائی  کا ذریعہ بھی مشترک ہو تو ایسی صورت میں ساری کمائی والد کی شمار ہوتی ہے ،لیکن اگر کسی بھائی کی الگ کمائی ہو اور وہ اپنی کمائی سے کوئی جائیداد  بنا لے، تو وہ جائیداد شرعًا صرف اسی کی ہوتی ہے، اس میں دوسرے بھائیوں یا والد کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

 صورتِ مسئولہ میں چوں کہ  ڈاکٹر بھائی الگ کماتے تھےاگر چہ ان کا کھانا پینا اور باقی خرچہ ایک ساتھ ہوتاتھا، اور اسی  اپنی کمائی سے اس نے مذکورہ ہسپتا ل بنایا ، اس میں نہ تو والد صاحب کی رقم خرچ ہوئی ہے، اور نہ کسی بھائی کی، اس لئے مذکورہ ہسپتال صرف ڈاکٹر بھائی کا ہوگا، اور اس سے حاصل شدہ رقم  بھی صرف ڈاکٹر بھائی کی  ہوگی، اس میں نہ تو  والد کا اور نہ ہی  کسی دوسرے بھائی کا شرعًا حصہ ہے،اور علاقے کے عرف کی وجہ سے یا ڈاکٹر بھائی کا  صرف اتنا کہنا" کہ ہم سب اس میں شریک ہیں"   شرکت  کے لیے کا فی  نہیں، شریک  اس صورت میں ہوتے کہ جب مذکورہ ہسپتال  سب بھائیوں کےمجموعی  پیسوں سے بناہوتا، یا ڈاکٹر بھائی ہر ایک بھائی کو مالکانہ اختیارات کے ساتھ مذکورہ ہسپتال میں سے کچھ حصہ ہدیہ (گفٹ) کردیتے،تو ہر ایک  بھائی اپنے حصے کا مالک ہوجاتا اور  سائل کے بیان کے مطابق ڈاکٹر بھائی نے مکمل ہسپتال اپنی ذاتی کمائی سے بنایا تھا، لہٰذا ہسپتال صرف اسی کا ہوگا، اور باقی بھائیوں  میں سے جس بھائی نے  ہسپتال کی نگرانی اور دیکھ بھال کی ہے، تو وہ اپنے اس عمل کی اجرت کا مستحق ہوگا۔

تاہم ڈاکٹر بھائی کا  اخلاقی فریضہ بنتاہے  کہ جب اس نے والد کی زندگی میں سب کا نام شامل کیاتھا اور زبانی بھی یہ کہاہے، کہ ہم سب شریک ہیں تو اب  اپنے خاندان کے سمجھدار  ودیانت دار لوگوں کو بیچ میں ڈال کرباہمی رضامندی سے صلح کی راہ اپنائے اور حسبِ وعدہ اپنے بھائیوں کو بھی ہسپتال سے حاصل شدہ رقم میں حصہ دےدے،تو بہتر ہے لازم نہیں۔

درر الحكام ميں ہے:

"و يوجد ثلاثة شروط لأجل اعتبار الولد معينا لأبيه:1 - اتحاد الصنعة، فإذا كان الأب مزارعا والابن صانع أحذية فكسب الأب من المزارعة والابن من صنعة الحذاء، فكسب كل منهما لنفسه وليس للأب المداخلة في كسب ابنه لكونه في عياله.

وقول المجلة: (مع ابنه) إشارة لهذا الشرط. مثلا إن زيدا يسكن مع أبيه عمرو في بيت واحد ويعيش من طعام أبيه وقد كسب مالا آخر فليس لإخوانه بعد وفاة أبيه إدخال ما كسبه زيد في الشركة ...(ولده) ليس احترازيا فالحكم في الزوجة والإخوة على الوجه المذكور أيضا وذلك لو عمل أحد في صنعة مع زوجته الموجودة في عيال و اكتسبا أموالًا فكافة الكسب للزوج وتعد الزوجة معينة (الهندية) أما إذا كان للزوجة كسب على حدة فكافة الكسب لها و لاتعد معينة للزوج."

(كتاب الشركة :المادة:1398:ج:3:ص:420:ط:دار الجيل)

شرح المجلۃ لرستم باز  میں ہے:

"إذا عمل رجل في صنعة هو وابنه الذي في عیاله فجمیع الکسب لذلك الرجل، و ولدہ یعد معینًا له، فيه قیدان احترازیان کما تشعر عبارۃ المتن، الأول: أن یکون الابن في عیال الأب، الثاني: أن یعملا معا في صنعة واحدۃ إذ لو کان لکل منهما صنعة یعمل فيها وحدہ فربحه له."

(المبحث الثاني بیان المسائل المتعلقة بشرکة الاعمال /ج:2/ص:582/مادۃ:1398/ط:رشیدیہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100783

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں