بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ولدیت کی تبدیلی


سوال

میرے  اصل ماں باپ نے بچپن میں  مجھے میری پھوپھی کو دے دیا اور باپ کے نام کی جگہ اصل باپ کا نام نہیں، بلکہ میرے پھوپھا کا نا م لکھ  دیا اور سب تعلیمی اسناد پر پھوپھا کا نام ہے،  مجھے پتا  نہیں تھا کہ میرے اصل ماں باپ کون سے ہیں، راہ نمائی کردیجیے کہ مجھے سب اسناد وغیرہ پر اپنے اصل ابو کانام لکھوانا پڑے گا؟  اور  کیا میں اصل  ماں باپ کے مال میں  وراثت کا  حق دار ہوں؟  جب کہ میرے   کہنے  پر میرے لے پالک والدین نے  مجھے کچھ نہیں دیا ۔  اور  میری شادی کروانے کے زیادہ حق دار کون سے ماں باپ  ہیں؟

جواب

واضح    رہے  کہ کسی  بچے کو  اپنا منہ بولا  بیٹا یا بیٹی بنانا اور  اس  کی  پرورش  کرنا  جائز   ہے، لیکن اس  میں یہ شرائط ہیں:

1-  زیرِ  پرورش  بچے کو  اپنے حقیقی والد  کی طرف نسبت کرکے بلایا جائے، لہذا نکاح نامہ، دیگر  سرکاری کاغذات  اور  وہ تمام جگہیں  جہاں بچے کے  ساتھ  والد  کا نام لکھا جاتا ہے، وہاں حقیقی والد کا نام لکھا جائے، پرورش کرنے والے کا نام ولدیت کے خانے میں لکھنا درست نہیں۔

2- زیر پرورش بچے کے لیے وہ تمام احکام نہیں جو حقیقی بیٹے یا بیٹی کے ہوتے ہیں، لہذا  اس کے لیے میراث میں حصہ نہیں ہوگا، اگر محرم ہونے کی کوئی اور وجہ نہ ہو تو صرف  منہ بولا بیٹا بنانے کی وجہ سے وہ محرم نہیں بنے گا، لہذا اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا اوربالغ ہونے کے بعد اس سے پردہ کرنا لازم ہوگا، البتہ اگر پرورش میں لینے والے شخص کی بہن (زیر پرورش لڑکی ہونے کی صورت میں) یا اس کی بیوی  کی بہن (زیر پرورش لڑکا ہونے کی صورت میں)  اس  بچے کو   مدتِ  رضاعت  میں  دودھ  پلادے تو  وہ محرم بن  جائیں گے، پھر اس بچے سے بالغ ہونے کے بعد پردہ کرنا لازم نہیں ہوگا  اور اس سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

لہٰذا بصورتِ مسئولہ اپنے آپ کو حقیقی ولدیت کی طرف منسوب  کرکے لکھنا اورپکارنا چاہیے۔

جن اسناد میں تبدیلی ممکن ہے ان میں تبدیلی کےلیے حتی المقدورکوشش لازم ہے اورجن میں ممکن  نہیں یا فی الحال سکت نہیں ہے ،ان میں استطاعت  کے حصول تک ندامت کے ساتھ تاخیر کی گنجائش ہے۔

آپ کا رشتہ کرانے کا حق اصل والد ہی کو ہے، وہی آپ کے  ولی ہیں ،  اور ان ہی  کی میراث میں آپ کا  حصہ ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن سعد وأبي بكرة كلاهما يقول: سمعته أذناي ووعاه قلبي محمدًا صلى الله عليه وسلم يقول: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام »".

(الصحيح لمسلم، كتاب الإيمان، باب بيان إيمان من رغب عن أبيه الخ ۱/ ۵۸ ط:قديمي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں