بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے سامنے اف بھی نہ کہا جائے


سوال

بنی اسرائیل کے تین آدمی ایک جنگل میں بارش کی وجہ سے غار میں پناہ لی اور پھنس گئے تھے،تو وہ اپنے نیک اعمال کے واسطے سے وہاں سے نکل پائے تھے،تو ان میں سے ایک نے یہ عمل پیش کیا کہ وہ روزآنہ پہلے اپنی والدہ کو دودھ پلاتا تھا پھر بیوی بچوں کو،ایک دن بہت دیر ہو گئی تو والدہ سو چکی تھی تو وہ رات بھر والدہ کے سراہنے کھڑا رہا کہ اٹھیں گے تو پہلے ان کو دودھ پیش کروںگا،حتی کہ اس نے اپنے بچوں کو بھی نہیں دیا حالانکہ بچے مارے بھوک کے سسک رہے تھے تو کیا یہ بچوں پر ظلم نہیں ہوا؟تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔ممکن ہو اتنی زیادہ سے زیادہ تحقیق کر کے پھر اطمینان بخش جواب مرحمت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اللہ تعالی کے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، "سورة الاسراء، آيت نمبر: 23، 24 "  میں الله  تعالی نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے اور بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد انہیں "اف/ ہوں" تک کہنے سے منع فرمایا ہے، حالانکہ "اف / ہوں" اذیت کا باعث بننے والے کلمات میں سے  سب سے ہلکا کلمہ ہے،الغرض اللہ تعالی کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک سب سے اہم ہے بالخصوص جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں، اس عمر میں بھرپور خدمت کرکے ان کی راحت رسانی کا ذریعہ بننا  بڑی سعادت کی بات اور نیک بختی کی علامت ہے ، اور  ان کی ایذا رسانی کا ذریعہ بننا بدبختی کی علامت ہے۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنے والدین کے حق کو مقد م کیا  اپنے بچوں کے حق پر اس  لیے کہ ان کی شریعت میں والدین کا نفقہ سب پر  مقدم تھا ۔

اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

"{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا."[الإسراء: 23، 24]

ترجمہ:" تیرے رب نے حکم کردیا کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کر اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی ہوں بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالاپرورش کیا ہے۔" (بیان القرآن) 

حدیث شریف میں ہے :

"عن ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" بينما ثلاثة نفر ممن كان قبلكم يمشون، إذ أصابهم مطر، فأووا إلى غار فانطبق عليهم، فقال بعضهم لبعض: إنه والله يا هؤلاء، لا ينجيكم إلا الصدق،فليدع كل رجل منكم بما يعلم أنه قد صدق فيه، فقال واحد منهم: اللهمإن كنت تعلمأنه كان لي أجير عمل لي على فرق من أرز، فذهب وتركه، وأني عمدت إلى ذلك الفرق فزرعته، فصار من أمره أني اشتريت منه بقرا، وأنه أتاني يطلب أجره، فقلت له: اعمد إلى تلك البقر فسقها، فقال لي: إنما لي عندك فرق من أرز، فقلت له: اعمد إلى تلك البقر، فإنها من ذلك الفرق فساقها، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا، فانساحت عنهم الصخرة، فقال الآخر: اللهمإن كنت تعلمأنه كان لي أبوان شيخان كبيران، فكنت آتيهما كل ليلة بلبن غنم لي، فأبطأت عليهما ليلة، فجئت وقد رقدا وأهلي وعيالي يتضاغون من الجوع، فكنت لا أسقيهم حتى يشرب أبواي فكرهت أن أوقظهما، وكرهت أن أدعهما، فيستكنا لشربتهما، فلم أزل أنتظر حتى طلع الفجر، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا، فانساحت عنهم الصخرة حتى نظروا إلى السماء، فقال الآخر: اللهمإن كنت تعلمأنه كان لي ابنة عم، من أحب الناس إلي، وأني راودتها عن نفسها فأبت، إلا أن آتيها بمائة دينار، فطلبتها حتى قدرت، فأتيتها بها فدفعتها إليها، فأمكنتني من نفسها، فلما قعدت بين رجليها، فقالت: اتق الله ولا تفض الخاتم إلا بحقه، فقمت وتركت المائة دينار، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا، ففرج الله عنهم فخرجوا".

(صحيح البخاري:كتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار، 4/172السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية)

فتح الباری میں ہے

"وقد استشكل تركه أولاده الصغار يبكون من الجوع طول ليلتهما مع قدرته على تسكين جوعهم فقيل كان في شرعهم تقديم نفقة الأصل على غيرهم وقيل يحتمل أن بكاءهم ليس عن الجوع وقد تقدم ما يرده وقيل لعلهم كانوا يطلبون زيادةعلى سد الرمقوهذا أولى."

(كتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار،510/6،دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310100042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں