بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کا ایک بیٹے کو جائے داد دینا


سوال

والدین اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو پوری جائیداد دوسروں کی اجازت کے بغیر دے  سکتے ہیں؟اگر دے دی ہو اور اس کی وجہ سے اولاد  والدین کے  ساتھ بدسلوکی کریں تو کیا حکم ہے؟

جواب

(1)صورتِ  مسئولہ میں والد کا اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کو دینا ہبہ ہے اور ہبہ کے بارے میں شریعتِ مقدسہ کی ہدایت یہ ہے کہ ہبہ کرنے میں تمام اولاد ( بیٹے اور بیٹیوں ) کے درمیان برابری کی جائے، اس لیے والدین کو چاہیے  کہ اپنی ساری جائیداد صرف  کسی ایک   کو دینے کے بجائے تمام اولاد  کو برابر برابر کر کے  دیں، ورنہ اگر کسی معقول شرعی وجہ کے بغیر تقسیم میں مساوات نہیں کی تو گناہ گار  ہوں گے اور آخرت میں پکڑ ہوگی، البتہ اگراولاد میں سے  کسی ایک  کو اس کی دین داری یا خدمت گزاری    کی وجہ سے کچھ زائد دینا چاہیں تو  اس کی گنجائش ہے، لیکن کسی ایک کو بالکل محروم کردینا اور باقی کو دینا یا صرف ایک کو دے کر باقی سب کو محروم کردینا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی والد نے اپنی جائیداد صرف ایک ہی بیٹے کو دے دی ہو اور باقی کو کچھ نہیں دیا اور ان سب کو برابر برابر دینے کے  لیے مزید جائے داد بھی نہیں ہے تو ان کا یہ طرزِ عمل جائز نہیں ہے، انہیں سب اولاد میں برابری کرنی چاہیے، اور اس غلطی پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

(2)    اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے، غرض ر شتے بنا نے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقر ر فرمائے ہیں ، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے ؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں اگرچہ والدین نے اپنی جائے داد اولاد میں سے صرف کسی ایک کو دے دی ہو، تب بھی اولاد کے لیے ان سے بدسلوکی جائز نہیں ہے، بدسلوکی کی صورت میں اولاد گناہ گا رہوگی۔

والدین سے حسنِ سلوک کا حکم
   اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :

’’وَقَضٰى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّهُمَا أُفٍّ وَّلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلاً كَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ إِنْ تَكُوْنُوْا صَالِحِیْنَ فَإِنَّه كَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا ۔‘‘ 
ترجمہ: ’’ اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ـ’’ہوں ‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو اُن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے اُن کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے۔‘‘

    اس آیتِ کریمہ میں اللہ جل جلالہٗ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ: اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں، ان ہی کی برکت سے ہوں، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف، دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں، بلکہ  اوقات اپنا آرام و راحت، اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔

ماں کا مجاہدہ
    سب سے زیا دہ محنت و مشقت اور تکلیف ماں برداشت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَ وَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا‘‘

ترجمہ: ’’اس ماں نے تکلیف جھیل کر اُسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اُسے جنا۔‘‘

حمل کے نو [۹] ماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف، یہ سب ماں برداشت کر تی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کرتا ہے، سردی ہو یا گرمی، صحت ہو یا بیماری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معاش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے اور ان کے لیے کما کر لاتا ہے، ان کے اوپر خرچ کرتا ہے، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے، اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے، بچہ بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہوجاتے ہیں، ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، اس کے علاج و معالجہ کی خاطر ڈاکٹروں و علاج گاہوں کے چکر لگاتے ہیں۔ غرض والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے، وہا ں ساتھ ساتھ والدین کا بھی شکر گزار رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ أَنِ اشْکُرْ لِيْ وَلِوَالِدَیْكَ إِلَيَّ الْمَصِیْرُ‘‘  ’’ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے کسی نے پو چھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اُٹھایا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اُٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے، کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟ تو حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما نے فرما یا: ’’نہیں، ہر گز نہیں، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگایا تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے: ’’وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا‘‘ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے، تکبر نہ کرے، ہر حال میں اُن کی اطاعت کرے ، الا یہ کہ وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر اُن کی اطا عت جائز نہیں۔ سورۂ عنکبوت  میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:’’وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْهُمَا ‘‘  ’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس با ت کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے، جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو  اُن کا کہنا مت ماننا ۔‘‘

حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  سے کسی نے دریافت کیا کہ ماں باپ کے  ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے؟ تو انہوں نے فرمایا: تو اُن پر اپنا مال خرچ کر، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر، ہاں! اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ والدین کے  ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول اُن کو نہ لگ جا ئے۔

بڑھاپےمیں حسنِ سلوک کا خصوصی حکم اللہ تعالیٰ نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فر ماکر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایک یا وہ دونوں تیری ز ند گی میں پڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو اُن کو ’’اُف ‘‘بھی مت کہنا اور نہ اُن سے جھڑک کر بات کرنا۔

حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بیان القرآن میں ’’اُف‘‘ کا ترجمہ ’’ہوں‘‘ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ: والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ ’’ہوں‘‘ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہوتا ہے، البتہ بڑھاپے میں  والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر اور بسااوقات درست اور حق بات پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر بات کرنا تو دور کی با ت ہے، ان کو’’ اُف‘‘ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناخوشگواری کا اظہار بھی مت کرنا۔
رہے ہیں۔
والدین کا ادب
حضرت عا ئشہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے ، وہ فر ما تی ہیں کہ: ایک شخص رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کہ: یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ: یہ میرا باپ ہے، آپ  علیہ السلام  نے فرمایا:’’ لاتمش أمامہٗ، و لاتقعد قبلہٗ، و لاتدعہ باسمہٖ، و لاتستبّ لہٗ.‘‘
’’اُن کے آگے مت چلنا، مجلس میں اُن سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا۔ ‘‘

 بڑھا پے میں جب والدین کی کوئی با ت نا گوار گزرے تو ان سے کیسے گفتگوکی جا ئے؟ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلاً كَرِیْمًا‘‘یعنی ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اچھی بات کر نا، لب ولہجہ میں نرمی اور الفا ظ میں توقیر و تکریم کا خیا ل رکھنا۔ ’’قولِ کریم‘‘ کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب ؒ نے فرمایا: ’’قول العبد المذنب للسید اللفظ‘‘خطاکار اور زرخرید غلام،  سخت مزاج اور ترش رو آقا سے جس طرح بات کر تا ہے اس طرح با ت کر نا، یہ قول کریم ہے۔ 
آگے فرمایا:’’  وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَة‘‘ یعنی ان کے سامنے شفقت کے ساتھ انکساری سے جھکتے رہنا۔ حضرت عروہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے کسی نے پوچھا کہ اللہ نے قرآن میں والدین کے سامنے جھکے رہنے کا حکم دیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: اگر وہ کوئی با ت تیری ناگواری کی کہیں تو ترچھی نگاہ سے بھی اُن کو مت دیکھ کہ آدمی کی ناگواری اول اس کی آنکھ سے پہچانی جاتی ہے۔ اور فرمایا کہ ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ تیری وجہ سے ان کی دلی رغبت پوری کر نے میں فرق نہ آئے اور جس چیز کو والدین پسند کریں تو وہ ان کی خدمت میں پیش کر نے میں کنجوسی مت کرنا۔ (بر الوالدین، ص: ۴۰) 

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم کسی زمانے و عمر کے ساتھ مقید نہیں، بہرحال ہر عمر میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا واجب ہے، کیوں کہ والدین کی خدمت اور ان کی رضا مندی میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے اور ان کی ناراضی میں اللہ کی ناراضی ہے۔ 

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما  فر ما تے ہیں کہ رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ’’رضا اللہ مع رضا الوالدین و سخط اللہ مع سخط الوالدین.‘‘یعنی ’’اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی  ماں باپ کی ناراضی میں ہے۔‘‘

جنت یا جہنم کے دروازے 

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

’’ من أصبح مطیعًا في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة، و إن کان واحدًا فواحدًا، و من أمسى عاصیًا للہ في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، و إن کان واحدًا فواحدًا، قال الرجل: و إن ظلماہ؟ قال: و إن ظلماه، و إن ظلماه، و إن ظلماه.‘‘  

یعنی جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فر ما نبردار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کی نا فر ما نی کی، اس کے بتائے ہوئے احکا ما ت کے مطا بق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اور اگر والدین میں ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ: اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین دفعہ فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو ۔

 حضرت رفاعہ بن ایاس  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ ایاس بن معاویہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ رونے لگے، کسی نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ تو انہوں نے فرمایا : ’’کان لي بابان مفتوحان إلی الجنة و أغلق أحدهما‘‘یعنی میرے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے، اب والدہ کی وفات پر ایک بند ہوگیا ہے، اس لیے رو رہا ہوں۔ کس  قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں۔

والدین کے لیے دعا کا اہتمام کرنا

اللہ تعالیٰ نے جہاں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، وہیں پر ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: 

’’ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا‘‘

’’اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر ایسے ہی رحم فرما،جیسا کہ انہوں نے بچپن میں رحمت و شفقت کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔‘‘

ہر نماز کے بعدوالدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں، دو بہت آسان دعائیں جن کی تعلیم خود اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں دی ہے، ایک ماقبل والی اور دوسری یہ:

’’رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ‘‘  

’’اے میرے پروردگار! روزِ حساب تو میری، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں