بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین اگر بیوی بچوں کو چھوڑنے کا کہیں تو کیا حکم ہے؟


سوال

 میں شادی شدہ ہوں، میری 4 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہےاور میرے ساتھ  میرےماں باپ کی نہیں لگتی ، وہ کہتے ہیں کہ اپنی بیوی ،بچوں کو چھوڑدو اور میں نہ اپنی بیوی ،بچوں کو چھوڑ سکتا ہوں اور نہ ماں باپ کو،میں بہت پریشان رہتا ہوں ،آپ راہ نمائی فرمائی کہ میں  کیا کروں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے والدین اور بیوی ،بچوں میں سے ہر ایک کے حقوق مقرر کر دیے ہیں، دونوں میں سے کسی بھی ایک کی حق تلفی کرناجائز نہیں ،لیکن ساتھ  ہی ساتھ ناحق بات اور گناہ وظلم کی بات میں کسی کی اطاعت کی گنجائش  نہیں ہے، صورتِ مسئولہ میں سائل کے والدین کاسائل کو اس کے بیوی ،بچوں  کے چھوڑنے پرمجبورکرناشرعًا واخلاقًا کسی طرح بھی جائز نہیں،میاں بیوی میں جدائی ڈالنا،یاجدائی ڈالنے کی کوشش کرنابدترین گناہ ہے،سائل کے والدین کو چاہیے کہ وہ اس گناہ سے توبہ تائب ہوجائے،اور سائل کواپنے والدین کی یہ بات ہر گز نہیں ماننی چاہیے،اس سے اُن پر کوئی گناہ نہیں ہوگا،البتہ والدین کے ساتھ قطع تعلقی بھی کسی طرح جائز نہیں،اُن کی ناجائز بات نہ مانی جائے،باقی اُن کے ساتھ حسنِ سلوک اورصلہ رحمی برقرار رکھی جائے، دونوں جانب کے حقوق کی رعایت رکھی جائے، بیوی ،بچوں کی بھی حق تلفی نہ کی جائے اور والدین  کے ساتھ بھی نرمی اور احسان کامعاملہ کیاجائے ،ممکن ہوسکے توحکمت وبصیرت کے ساتھ خاندان کے کسی بڑے  کے ذریعے والدین  کوایسے طریقے پر سمجھانے کاانتظام کیاجائے جس سے اُن کی دل آزاری نہ ہو    ۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ."(النساء: 19)

"ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کرو، اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

 حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي."

(مشکاة المصابیح، 2/282، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مؤمنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔"

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."

(مشکاة المصابیح، 2/281، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں"۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى: "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي" وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً"والمرأة أيضاً مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان."

( البَاب الأوَّل: الزّواج وآثاره، 9 /6598 -6599، ط: دار الفكر)

مسند احمد میں ہے:

"عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ‌لا ‌طاعة ‌لمخلوق ‌في ‌معصية ‌الله ‌عز ‌وجل."

(مسند علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 333/2، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:" نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ:اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ کی جائے۔"

وفیہ ایضًا:

"عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌إن ‌إبليس يضع عرشه على الماء، ثم يبعث سراياه، فأدناهم منه منزلة أعظمهم فتنة، يجيء أحدهم، فيقول: فعلت كذا وكذا، فيقول: ما صنعت شيئا، قال: ويجيء أحدهم، فيقول: ما تركته حتى فرقت بينه وبين أهله، قال: فيدنيه منه - أو قال: فيلتزمه - ويقول: نعم أنت أنت." 

‌‌(‌‌مسند جابر بن عبد الله رضي الله عنه، 275/22، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے ،پھر وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے ،پس اُس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں ان سے بڑا ہو ،اُن میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا ،تو شیطان کہتا ہے تو نے کوئی (بڑا) کام سر انجام نہیں دیا ،پھر اُن میں سے ایک (اور) آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے (فلاں آدمی) کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈال دی ،شیطان اسے اپنے قریب کر کے یااپنے ساتھ چمٹاکرکہتا ہے کہ :ہاں !تو ہے(جس نے بڑا کام کیا ہے) ۔"

تفسیر مظہری میں ہے :

"(وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ) اى أمرناه ان يبرّهما ويشكرهما۔۔۔۔۔۔(حَمَلَتْهُ أُمُّهُ)۔۔(وَهْناً )كائنا (عَلى وَهْنٍ)۔۔۔عن ابى هريرة قال قال رجل يا رسول الله من أحق بحسن صحبتي قال أمك ثم أمك ثم أمك ثم أباك ثم أدناك فادناك متفق عليه وقال عليه السّلام ان الله حرم عليكم عقوق الأمهات. متفق عليه۔۔۔۔۔(مسئلة) يجب بهذه الآية الإنفاق على الأبوين الفقيرين وصلتهما وإن كانا كافرين ،عن أسماء بنت ابى بكر قالت قدمت علىّ أمي وهي مشركة فى عقد قريش فقلت يا رسول الله ان أمي قدمت علىّ وهى راغبة أفأصلها قال نعم صليها. متفق عليه-۔۔۔(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة او إتيان مكروه تحريما ؛لان ترك الامتثال لامر الله والامتثال لامر غيره إشراك معنى ولما روينا من قوله عليه السّلام لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- ويجب إطاعتهما إذا أمرا بشئ مباح لا يمنعه العقل والشرع......إلخ."

(سورة لقمان، آیة: 14،15، ط: رشيدية)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

( کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث: 3 / 1382، ط: المکتب الإسلامي)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"

سنن ترمذی میں ہے: 

 "عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد."

(‌‌أبواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، 4/ 310 ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے."

وفیہ ایضاً:

"قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:الوالد أوسط أبواب الجنة، فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه."

(أبواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين،4/ 311، ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو ۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں