میرا بیٹا میری بہن کا لے پالک ہے،سرکاری کاغذات میں ولدیت کے خانہ میں میرا نام ہے،نکاح میں بھی بطور والد میرا نام لیا گیا تھا،اب قاضی کا کہنا ہے کہ نکاح نامہ میں ولدیت کے خانہ میں میرا نہیں بلکہ میرے بہنوئی کا نام ہوگا۔کیا ایسا کرنا شرعا درست ہے؟
کاغذات میں ولدیت کے خانے میں حقیقی والد کا نام لکھنا ضروری ہے، غیر والد کی طرف بطورِ ولدیت نسبت کرنا از روئے شرع حرام ہے؛لھذا نکاح نامہ میں لڑکے کی ولدیت کے خانہ میں سائل (لڑکے کے حقیقی والد) کا ہی نام لکھنا ضروری ہوگا،بہنوئی کا لکھنا جائز نہیں ہوگا، لہذا صورت مسئولہ میں قاضی صاحب کی بات درست نہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
’’اُدْعُوْهُمْ لِأٰبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ، فَإِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْا أٰبَائَهُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِي الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ، وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَا أَخْطَأْتُمْ بِهٖ ولٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ‘‘۔(الاحزاب:۵)
ترجمہ:…’’تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تووہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تو تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں جو دل سے ارادہ کرکے کرو‘‘۔(بیان القرآن)
حدیث شریف میں ہے:
"عن سعد وأبي بكرة كلاهما يقول: سمعته أذناي ووعاه قلبي محمدًا صلى الله عليه وسلم يقول: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام»".
( الصحيح لمسلم ، كتاب الإيمان، باب بيان إيمان من رغب عن أبيه الخ ۱/ ۵۸ ط:قديمي)
"ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہمادونوں راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرے اور وہ یہ جانتا بھی ہو کہ یہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100406
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن