بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کو دیے ہوئے قرض پر زکوٰۃ


سوال

میں نے چھ  تولہ سونا والدہ کے پاس بطورِ امانت رکھوایا تھا ، والدہ نے وہ سونا میری اجازت کے ساتھ میرے بھائی کو دیا،اور والد ہ نے  مجھے یہ یقین   دہانی کروائی تھی کہ میں عنقریب تمہیں واپس کر دوں گی،  اب والدہ وفات پاچکی  ہیں ، سونے کی واپسی  نہیں ہوئی  کیا میری والدہ پر اس کا کوئی  افتاد ہوگا  کہ نہیں؟ اور مجھ پر  اس  کی زکوٰۃ وغیرہ تو واجب نہیں ؟ رہنمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ  میں  چھ تولہ سونا سائلہ  کی والدہ  پر قرض تھا، اگر انہوں نے زندگی میں ادا نہیں کیاتو اس کی ادائیگی ان  کے ترکے سے تقسیمِ ترکہ سے پہلے لازم ہے،یا سائلہ اس قرضے کو معاف کر دے تو سائلہ کی والدہ کے ذمے سے   قرض اترجائے گا، اور آخرت میں پوچھ نہیں ہوگی، بصورتِ دیگر یہ قرضہ ان کے ذمے واجب الاداء رہےگا،   حدیث شریف میں  آتا ہے کہ’’ مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق  رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کی قرض کی ادا ئیگی کر دی جائے‘‘

نیز  واضح رہے کہ سائلہ کے پاس ان چھ تولہ سونے کے علاوہ کچھ رقم یا ضروریاتِ اصلیہ سے زائد سامان وغیرہ ہو تو ان قرضوں (چھ تولہ سونے) کو وصول کرنے کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی بھی زکوٰۃ کی ادائیگی سائلہ کے ذمے واجب الادا ہوگی اور اگر سالانہ زکوۃ ادا کر دے گی تو ادا ہو جائے گی۔

سننِ ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه".

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے۔ 

(سنن الترمذی، ابواب الجنائز، باب ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه، رقم الحدیث:1078، ج:2، ص:380، ط:دارالغرب الاسلامی)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"‌الديون ‌تقضى ‌بأمثالها".

(كتاب الزكاة، باب العشر، ص:210، ج:2، ط: دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وإن أقر المريض لوارثه) بمفرده أو مع أجنبي بعين أو دين (بطل) خلافا للشافعي - رضي الله تعالى عنه -: ولنا حديث «لا وصية لوارث ولا إقرار له بدين» (إلا أن يصدقه) بقية الورثة."

(كتاب الإقرار، باب إقرار المريض، ج5، ص613، سعيد)

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) الدين الصحيح (هو ما لا يسقط إلا بالأداء أو الإبراء) ولو حكما بفعل يلزمه سقوط الدين ."

(كتاب الكفالة،ج:5،ص:302، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال،ج:2،ص:305،،ط: ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں