بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی لاعلمی میں عیسائی خاتون سے کیا ہوا نکاح کا حکم


سوال

ایک لڑکے نے ایک عیسائی عورت سے نکاح کرلیا ہے، نکاح چیمبر میں ہوا، عورت کی عمر 40 سال ہے اور سابقہ مذہب کی طلاق یافتہ بھی ہے، اب اس عورت نے اسلام بھی قبول کرلیا ہے، لیکن نکاح کے وقت عیسائی (کیتھولک) تھی تو کیا یہ نکاح درست ہے؟ کیوں کہ وہ عورت امریکا کی رہائشی ہے اور اکیلی رہتی ہے اپنی بچی کے ساتھ، تو سوال یہ تھا کہ کیا ان کا نکاح درست ہے؟ لڑکے نے اپنے والدین کو نہیں بتایا اس بارے میں، کیا اس کا گناہ ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر مذکورہ خاتون اسلام لانے سے پہلے نکاح کے وقت اپنے اصل مذہب عیسائیت پر قائم تھی، یعنی حضرت عیسی علیہ السلام  کو اپنا نبی مانتی تھی اور انجیل  کو آسمانی کتاب تسلیم کرتی تھی تو اس سے کیا ہوا نکاح جائز ہے۔

باقی مذکوہ شخص کا اپنے والدین کے علم میں لائے بغیر نکاح کرنے کا حکم یہ ہے کہ مذکورہ نکاح تو منعقد ہوگیا ہے، تاہم والدین کی رضامندی کے بغیر یوں چھپ کر نکاح کرنا شرعًا، عرفًا اور اخلاقًا ناپسندیدہ عمل ہے، جس پر بیٹے کو نادم و پشیمان ہونا چاہیے اور اپنے والدین کو حکمت و تدبیر سے جلد اس حقیقت سے آگاہ کرکے ان کو راضی کرنا چاہیے، کیوں کہ حدیث شریف میں والدین کی ناراضی کو اللہ تعالی کی ناراضی قرار دی گئی ہے۔ (مشکات المصابیح، باب البر والصلۃ، رقم الحدیث:4927)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح نكاح كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلها."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:45، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144204200408

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں