بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے علم کے بغیر بھاگ کرخفیہ شادی کرنے اور ماں باپ کا بچوں کو مارنے کا حکم


سوال

ایک لڑکی ہے جو چودہ (14) سال کی ہے، اور اس نے ایک لڑکے کو پسند کیا، اور گھر والوں کو یہ پتا چلا لیکن گھر والے نہیں مانے، تو اس نے ایک دن اس لڑکے کے ساتھ بھاگ کر شادی کرلی، تو اس کا شرعی نقطہ نظر سے جواب چاہیے، اور اب لڑکی کے گھر والے ان دونوں کو مارنا چاہتے ہیں!

جواب

واضح رہےشریعتِ مطہرہ نے لڑکی اور لڑکے دونوں اورخصوصاً لڑکی کی حیا، اخلاق، معاشرت کا خیال رکھتے ہوئے ولی (والدین) کے ذریعے نکاح کا نظام رکھا ہے کہ نکاح ولی کے ذریعے کیا جائے، یہی شرعاً، اخلاقاًاور معاشرۃً  پسندیدہ طریقہ ہے،  لیکن اگر کوئی نادان لڑکی یا لڑکا جو کہ عاقل بالغ ہیں  خود ہی  والدین کو لاعلم رکھ کر خفیہ طور پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں  نکاح کریں تو نکاح ہوجائے گا، دونوں میاں بیوی بن جائیں گے، لیکن یہ نکاح از روئے شرع ناپسندیدہ طریقہ پر ہوا ہے۔

نیز اگر لڑکی نے جہاں نکاح کیا ہے، اگر وہ شرعی اعتبار سے کفو (برابری کا رشتہ) نہیں ہے تو اولاد ہونے سے پہلے اولیاء کو نکاح فسخ کروانے کا حق ہوگا۔

ایسے معاملے میں  والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے عاقل بالغ بچوں کی رائے کا احترام کرے اور ایسا رویہ ہر گز نہ رکھے کہ اولاد کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے جو سب کے لیے رسوائی کا باعث ہو۔

بصورتِ مسئولہ اگر مذکورہ لڑکے اور لڑکی نے مجلسِ عقد میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب و قبول کیاہے تو یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے اور دونوں میاں بیوی بن گئے، البتہ اس طرح نکاح کرنا شرعاً، عرفاً، اخلاقاً نہایت ہی نامناسب عمل تھا جس پر ان دونوں کو اپنے ماں باپ سے معافی مانگ کر ان کو راضی کرنا چاہیے، نیز غیر کفو میں نکاح ہونے کی صورت میں لڑکی کے اولیاء کو اس کی اولاد ہونے سے پہلے نکاح فسخ کرنے کا حق ہوگا۔

اگر نکاح کفو میں ہو تو والدین کو چاہیے کہ اَب نکاح ہوجانے کے بعد بچوں کے احوال کی اِصلاح کی کوشش کریں، انہیں مارنے کے دَرپے ہونا عقل مندی بھی نہیں ہے اور شرعًا جائز بھی نہیں ہے، سمجھ داری تو یہ تھی کہ بچی کو آزادانہ گھر سے باہر نکلنے اور آزاد ماحول سے روکا جاتا، ایک غلطی کا اِزالہ دوسری غلطی سے کرنا کہاں کی دانائی ہے!

شریعت نے عاقل بالغ بچوں کی رائے کا خیال رکھنے کا ہمیں حکم دیا ہے، بروقت حکمت کے ساتھ اولاد کو سمجھا دینا چاہیے، تاکہ وہ اپنے دل کی چاہت بجائے دوسروں سے کہنے کے والدین سے ہی کہہ کر سکون محسوس کریں، اور والدین اگر رشتہ مناسب نہ سمجھیں تو انہیں پدرانہ و مادرانہ شفقت سے نوازتے ہوئے ان کا بھلا سمجھا دیں، یوں جانبین سے اعتماد و محبت کی فضا قائم رہتی ہے، اور عمومًا اولاد ایسا قدم نہیں اٹھاتی جو شریعت کے خلاف ہو اور دنیا وآخرت میں ان کے لیے ندامت و بربادی کا سبب بنے، اب بچی نے نادانی میں یہ غلط اِقدام کرلیا ہے تو بڑوں کو انہیں مارنے کا نہیں سوچنا چاہیے۔

تحفۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی میں ہے:

"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي المَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ».

قَوْلُهُ: (أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ) أَيْ بِالْبَيِّنَةِ فَالْأَمْرُ لِلْوُجُوبِ أَوْ بِالْإِظْهَارِ وَالِاشْتِهَارِ فَالْأَمْرُ لِلِاسْتِحْبَابِ كَمَا فِي قَوْلِهِ (وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ) وَهُوَ إِمَّا لِأَنَّهُ أَدْعَى لِلْإِعْلَانِ أَوْ لِحُصُولِ بَرَكَةِ الْمَكَانِ (وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ) أَيْ عَلَى النِّكَاحِ (بِالدُّفُوفِ) لَكِنْ خَارِجَ الْمَسْجِدِ".

(باب ماجاءفى اعلان النكاح، ج:4، ص:174، ط:دارالكتب العلمية)

مصنف ابن أبي شيبة  میں ہے:

"عن هشام، قال: كان أبي يقول: «لا يصلح نكاح السر»".

(ماقالوا في اعلان النكاح، ج:3، ص:495، ط:مكتبة الرشد.رياض)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144204201172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں