اگر اپنے خرچے میں سے اتنے پیسے نہ بچیں اور نقد والدین کو نہ دے سکیں ان کی ضرورت کے علاوہ تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ضرورت کا خرچہ دینے کے بعد اگر والدین کو اضافی جیب خرچی کی رقم دینے کی استطاعت نہ ہو تو اس پر مؤاخذہ نہیں ہے، البتہ حسبِ استطاعت ان کا تعاون کرتے رہنا چاہیے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"قال: و يجبر الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا بخلاف الحربيين المستأمنين، و لايشارك الولد الموسر أحدًا في نفقة أبويه المعسرين، كذا في العتابية. اليسار مقدر بالنصاب فيما روي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى -.و عليه الفتوى و النصاب نصاب حرمان الصدقة، هكذا في الهداية. و إذا اختلطت الذكور و الإناث فنفقة الأبوين عليهما على السوية في ظاهر الرواية، و به أخذ الفقيه أبو الليث، و به يفتى، كذا في الوجيز للكردري."
(1 / 564، الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام، ط: رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109203061
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن