بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کو اکیلا چھوڑ کراعلی تعلیم اور روزگار کے لیے بیرون ملک جانا


سوال

میری عمر 23 سال ہے، میں سافٹ ویئر انجینئر ہوں اور پچھلے سال ہی میں نے اپنی بیچلرز کی تعلیم مکمل کرلی ہے، میرے تمام دوست تعلیم اور کام کے لیے بیرون ملک جانے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن میں نے کبھی بیرون ملک جانے کا ارادہ نہیں کیا، کیونکہ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں، حالانکہ میرے والدین زیادہ بوڑھے نہیں ہیں، لیکن پھر بھی میں نے سوچا کہ میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہوں گا، لیکن اب پاکستان کے حالات اور معیشت پہلے سے زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے، میرے والد بھی اب پاکستان سے تنگ آچکے ہیں، یہاں مہنگائی ہر وقت عروج پر ہے، اور میں پاکستان کی بہتری کے کوئی امکانات نہیں دیکھ رہا ہوں، اس لیے میں اپنے والدین کو چھوڑ کر اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے کا ارادہ کر رہا ہوں اور آخر کار وہیں نوکری تلاش کر کے آباد ہو جاؤں گا ان شاءاللہ ،دوسرے ممالک میں تنخواہیں زیادہ ہیں اس لیے شاید میں اخراجات کے لحاظ سے اپنے والد کی مدد کرسکوں، وہاں آباد ہونے کے بعد میں اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ رہنے کے لیے لے آؤں گا، لیکن اس میں پانچ سے چھ سال لگیں گے۔

کیا یہ میرے لیے جائز ہے کہ اپنے والدین کو یہاں چھوڑکر باہر پانچ سے چھ سالوں کے لیے چلا جاؤں؟ میرا دل تو راضی نہیں ہو رہا ہے۔ لیکن پھر میں سوچ رہا ہوں کہ میرا یہ فیصلہ مستقبل میں میرے اور میری فیملی کے لیے بھی فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں چونکہ سائل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے اور والدین کو اپنی اولاد کی خدمت کی ضرورت رہتی ہے ،لہذا سائل کے لئے والدین کو اکیلا چھوڑ کر بیرون ملک  نہیں جانا چاہیے، ،بلکہ  سائل اپنے ملک میں رہتے ہوئے  اعلی تعلیم حاصل کرکے روزگار تلاش کرے اور والدین کی خدمت کرے۔ اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا کرے، نمازوں کا اہتمام کرےاور والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت اور دیکھ بھال کو  اپنی سعادت سمجھے، یہ سعادت ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی۔

حدیث شریف میں ہے،حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فر ما نبردار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کی نا فر ما نی کی، اس کے بتائے ہوئے احکا ما ت کے مطا بق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اور اگر والدین میں ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ: اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین دفعہ فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو ۔

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم کسی زمانے و عمر کے ساتھ مقید نہیں، بہرحال ہر عمر میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا واجب ہے، کیونکہ والدین کی خدمت اور ان کی رضا مندی میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ 

البتہ اگر ایسی صورت بن جائے کہ سائل اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ بیرون ملک لے جاسکتا ہو تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ    بیرون ممالک میں اگر  کسی  اسلامی ملک میں اعلی تعلیم اور   نوکری مل سکتی ہو تو وہاں چلاجائے،اگر  کسی  اسلامی ملک  میں  سائل  کی تعلیم اور  معاشی مسائل کا حل نہ ہوسکے تو غیر مسلم ملک میں  جانے کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہاں دین پر کاربند رہے۔بیرون ملک سفر کرنے سے پہلے استخارہ ضرور کرے۔

حدیث شریف میں ہے:

"أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، في التاريخ، أنا أبو الطيب محمد بن عبد الله بن المبارك، نا أبو محمد عبد الله بن يحيى بن موسى السرخسي بنيسابور، نا سعيد بن يعقوب الطالقاني، نا عبد الله بن المبارك، عن يعقوب بن القعقاع، عن عطاء، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أصبح مطيعا في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة، وإن كان واحدا فواحدا، ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار، وإن كان واحدا فواحدا " قال الرجل: وإن ظلماه؟ قال: " وإن ظلماه، وإن ظلماه، وإن ظلماه."

(شعب الإيمان للبيهقي ،ج: 10، صفحہ: 306،ط:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض بالتعاون مع الدار السلفية ببمباي بالهند) 

المستدرك على الصحيحين میں ہے:

" حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا هارون بن سليمان، ثنا عبد الرحمن بن مهدي، وأخبرنا أحمد بن جعفر، ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي، حدثنا عبد الرحمن، ثنا شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن عبد الله بن عبد الله بن عمرو، رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رضا الرب في رضا الوالد وسخط الرب في سخط الوالد» هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه".

(كتاب البر والصلة، ج: 4، صفحہ: 168، رقم الحدیث: 7249، ط:  دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101708

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں