بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی طرف سے قربانی کرنا


سوال

ایک آدمی دوسرے آدمی مثلاً  ماں اور باپ کے نام پر قربانی دے سکتا ہے؟

جواب

مرحوم والدین یا دیگر مرحومین کے نام کی قربانی کرنا، اسی طرح زندہ والدین کو ثواب پہنچانے کے لیے ان کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے، روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دنبہ اپنی طرف سے قربان کرتے تھے اور ایک  دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربان کرتے تھے۔

  اگر مرحوم  والدین کی طرف سے قربانی کرنی ہو اور انہوں نے قربانی کرنے کی وصیت نہیں کی ہو، بلکہ کوئی عاقل بالغ شخص اپنی خوشی سے مرحوم کے لیے قربانی کرتا ہے تو  یہ قربانی حقیقت میں قربانی کرنے والے کی طرف سے ہوگی اور اس کا ثواب مرحوم کو پہنچے گا، اور اس قربانی کا گوشت مال دار اور فقیر سب کھاسکتے ہیں۔  

اور اس  صورت میں میت کی طرف سے قربانی کرنے کے دو طریقہ ہیں:

۱۔۔ میت کے نام پر ایک حصہ یا ایک چھوٹے جانور کی قربانی کی جائے۔

۲۔۔ قربانی کرنے والا اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک اور حصہ قربانی کرے اور اس کا ثواب میت کو پہنچادے، دونوں صورتیں صحیح ہیں۔

نیز اگر والدین زندہ ہوں اور ان پر قربانی واجب ہو تو  بیٹا ان کی اجازت سے  ان کی واجب قربانی بھی ان کی طرف سے کرسکتا ہے۔

سنن الترمذی میں ہے:

"حدثنا محمد بن عبيد المحاربي الكوفي قال: حدثنا شريك، عن أبي الحسناء، عن الحكم، عن حنش، عن علي، أنه كان يضحي بكبشين أحدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم، والآخر عن نفسه، فقيل له: فقال: «أمرني به» - يعني النبي صلى الله عليه وسلم - فلا أدعه أبدا: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث شريك وقد رخص بعض أهل العلم أن يضحى عن الميت ولم ير بعضهم أن يضحى عنه وقال عبد الله بن المبارك: «أحب إلي أن يتصدق عنه، ولا يضحى عنه، وإن ضحى، فلا يأكل منها شيئا، ويتصدق بها كلها» قال محمد: قال علي بن المديني: وقد رواه غير شريك، قلت له: أبو الحسناء ما اسمه فلم يعرفه قال: مسلم اسمه الحسن." (باب ما جاء في الأضحية عن الميت، ج:4، ص:84، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وجه) الاستحسان أن الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته - وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح - فدل أن الميت يجوز أن يتقرب عنه فإذا ذبح عنه صار نصيبه للقربة فلا يمنع جواز ذبح الباقين." (فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية، ج:5، ص:72، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لا يأكل منها وإلا يأكل بزازية." (كتاب الأضحية، ج:6، ص:326، ط:دار الفكر-بيروت)

و فيه أيضا:

"(قوله: وعن ميت) أي لو ضحى عن ميت وارثه بأمره ألزمه بالتصدق بها وعدم الأكل منها، وإن تبرع بها عنه له الأكل لأنه يقع على ملك الذابح والثواب للميت، ولهذا لو كان على الذابح واحدة سقطت عنه أضحيته كما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لكن في سقوط الأضحية عنه تأمل اهـ. أقول: صرح في فتح القدير في الحج عن الغير بلا أمر أنه يقع عن الفاعل فيسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب فراجعه." (كتاب الأضحية، ج:6، ص:335، ط:دار الفكر-بيروت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں