بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی رضامندی سے رشتہ کرنا چاہیے


سوال

میری عمر 34 سال ہے  میں ایک بالغ مرد اور اپنے گھر کا کفیل ہوں اور اپنی فیملی کا خرچہ اٹھاتا ہوں، میں ایک لڑکی کو گذشتہ  14 سال سے جانتاہوں اور آج سے 4 سال پہلے اپنے گھر والوں کو شرعی طور پر لڑکی کے گھر رشتہ لے جانے کی گزارش کرچکا ہوں بظاہر لڑکی کے گھر والوں کو  کوئی مسئلہ یا اعتراض نہیں ہے ۔

مگر میری والدہ اس رشتہ پر آمادہ نہیں ہیں ،جس کی  واحد وجہ  لڑکی کی کاسٹ (قومیت ) الگ ہونا ہے والدہ لڑکی سے اور لڑکی کے گھر والوں سے گھر جاکر مل چکی ہیں ،یہ معاملہ سالوں زیر بحث ہے اور کئی بار ان کے تمام اعتراضات اور سوالوں کے جوابات دینے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں  نکلتا اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی علاوہ اس کے کہ لڑکی کاسٹ الگ ہے اور والدہ کے خیال میں آگے جاکر مسائل ہوں گے ۔

میں چاہتوں  کہ یہ معاملہ والدہ کی خوشی اور رضامندی کے ساتھ طے ہو ،مگر 4 سال کی مسلسل کوشش کے باوجود کوئی نتیجہ سامنے نہ آنے کی وجہ سے اب میں یہ چاہتاہوں کہ اپنے والد صاحب کو بھیج کر معاملہ  کو آگے بڑھایا جائے اور نکاح کا پیغام بھیجاجائے ۔

1۔کیا   میرا ایسا عمل اور ایسا کرنا جائز ہے ؟

2۔کیا شریعت  مجھے والدہ کی مرضی کے خلاف فیصلے کا  اختیار دیتی ہے ؟

3۔اور والد صاحب کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے اگر والدہ نہیں مانتی ؟

کیونکہ اس تاخیر کی وجہ سے بے حد نقصان ہورہاہے اور وقت گذرتا جارہا ہے اور والدہ کو منانے کی تمام کوششیں بے سود ہیں اور نقصان بڑھتا جارہاہے ،جس میں سب سے بڑا نقصان  لڑکی اورمیری عمر کے گذرنے کا ہے ۔

جواب

واضح رہے کہاولاد کی تعلیم وتربیت اور مناسب جگہ پر ان کا رشتہ کرانا والدین کی شرعی ذمہ داری اور اولاد کا حق ہے،احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتے کے انتخاب میں مال، خوب صورتی، حسب ونسب، اور دینداری میں سےدین داری کو ترجیح دینا چاہیے،مشکوۃ شریف  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك."

ترجمہ:" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے: اول: اس کا مال دار ہونا۔  دوم: اس کا حسب نسب والی ہونا۔ سوم: اس کا حسین وجمیل ہونا۔  چہارم: اس کا دین دار ہونا، اس لیے اے مخاطب! تم دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو! خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ!"

)کتاب النکاح ، الفصل الاول،ص:267،ط:قدیمی کراچی)

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ عورت سے نکاح کرنے کے سلسلہ میں مذکورہ چار چیزوں کو بطور خاص ملحوظ رکھتے ہیں کہ کوئی شخص تو مال دار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، بعض لوگ اچھے حسب ونسب کی عورت کو بیوی بنانا پسند کرتے ہیں، بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایک حسین و جمیل عورت ان کی رفیقہ حیات بنے، اور کچھ نیک بندے دین دار عورت کو ترجیح دیتے ہیں؛ لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دین دار عورت ہی کو اپنے نکاح کے لیے پسند کرے؛ کیوں کہ اس میں دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی بھی سعادت ہے۔

"خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ"، ویسے تو یہ جملہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے ذلت وخواری اور ہلاکت کی بددعا کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہاں اس جملے سے یہ بد دعا مراد نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد دین دار عورت کو اپنا مطلوب قرار دینے کی ترغیب دلانا ہے۔  (مستفاد از مظاہر حق)

 اس کے ساتھ  ساتھ شریعت نے نکاح کے معاملہ میں والدین اور اولاد دونوں کو حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کی پسند کی رعایت کریں، والدین اپنے بچوں کا  کسی ایسی جگہ نکاح نہ کروائیں جہاں وہ بالکل راضی نہ ہوں،  اس سلسلے میں والدین کی طرف سے دباؤ، اعتراض اورناراضی کا اظہار کرنا درست نہیں، اسی طرح بچے بھی  ایسی جگہ نکاح کرنے پر مصر نہ ہوں جہاں والدین بالکل راضی نہ ہوں؛ اس لیے کہ جب اولاد اپنی مرضی سے کسی جگہ شادی کرتے ہیں اور اس میں شرعی احکام اور والدین کی رضامندی کی رعایت نہیں رکھتے تو عمومًا یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسی شادیاں کامیاب نہیں ہوتیں ۔

بہر صورت آپ کو اور آپ کے والدین کو چاہئیے کہ مل بیٹھ کر اور باہمی مشاورت سے کوئی بہتر صورت نکالیں، والدہ کے لیے صرف  قومیت الگ ہونے کی وجہ سے رشتہ سے منع کرنا صحیح نہیں ہے ،اگر لڑکی دیندار اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور والد کو بھی اس رشتہ پر اعتراض نہیں ہے تو والدہ کو بھی  چاہیے کہ وہ راضی ہوجائیں  ۔

نیز استخارہ بھی کریں اور اللہ تعالیٰ سے خوب دعا کریں ان شاء اللہ معاملہ بعافیت حل ہوجائے گا۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405100453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں